Tue, 21-Oct-2025

تازہ ترین خبریں:

چیمپئینز ٹرافی، کیا دبئی میں پچ بھی انڈیا کی مرضی سے بن رہی ہے ؟

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 میں انڈیا نے جس دھونس اور زبردستی سے اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے اس پر سب کو حیرت ہے۔

میزبان ملک ہوتے ہوئے پاکستان اپنی کوئی شرط آئی سی سی سے نہیں منوا سکا لیکن انڈیا نے اپنی ہر شرط منوائی بھی اور اس پر آئی سی سی نے سختی سے عمل بھی کیا۔  اتنی تابعداری اولاد ماں باپ کو نہیں دکھاتی جتنی آئی سی سی انڈیا کو دکھا رہی ہے

دبئی کے تاج ہوٹل سے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم تک انڈین کرکٹ ٹیم کے مداحوں کا ہجوم اور والہانہ استقبال صرف انڈین کرکٹ ٹیم کا حوصلہ نہیں بڑھا رہا ہے بلکہ آئی سی سی کے ایونٹ کی کامیابی کی نوید بھی سنارہا ہے لیکن یہی جوش و خروش پاکستانیوں کو ناگوار گزر رہا ہے۔

جو اس ایونٹ کے میزبان ہوتے ہوئے لاتعلق سے ہیں۔  نہ کوئی گرمجوش اظہار ہے اور نہ کہیں چیمپئیینز ٹرافی کا شور شرابا۔  ٹیم تو ٹورنامنٹ شروع ہونے کے دس دن بعد ایونٹ سے باہر ہوئی ہے لیکن خاموشی تو پہلے دن سے ہے۔

جس طرح اب لاتعلقی ہے اس نے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس نام نہاد میزبانی سے پاکستان کو کیا فائیدہ ہوا۔  شاید کچھ خزانے بھر گئیے ہوں لیکن عزت سادات چلی گئی۔

انڈیا کے فائدے اور پچ کا برتاؤ

اگر چیمپئیینز ٹرافی کے شیڈول سے لیکر اب تک کے نتائیج پر نظر ڈالیں تو انڈیا اس ایونٹ میں سب سے زیادہ پرسکون انداز میں میچ کھیل رہی پے۔  ایک ہی شہر میں سارے میچ کھیلنے سے انڈیا کے لیے بہت آسانیاں ہیں۔

مسلسل سفر سے کھلاڑیوں کی تھکن بڑھ جاتی ہے۔ بار بار اپنے سامان کو باندھنا اور پھر دوسرے دن کھولنا ایک اذیت ناک منظر ہوتا ہے۔ کھلاڑی ہونے کے باعث سامان پہلے ہی بہت زیادہ ہوتا ہے۔

باقی تمام سات ٹیمیں روز سامان سفر باندھتی اور کھول دیتی ہیں لیکن انڈیا کی ٹیم نے جو پہلے دن کمرے منتخب کیے آج بھی وہی ہیں۔  وہی رہائش وہی آسائش۔ وہی رنگ و بو اور وہی بے خوف ماحول۔

انڈیا کے اس آرام دہ سفر پر ہر طرف سے تنقید ہورہی ہے۔  بی بی سی ریڈیو کے چیف کمنٹیٹر جوناتھن اگنیو اور سابق انگلش کپتان مائیکل ایتھرٹن نے انڈیا کے لیے یہ ایک پسندیدہ صورتحال قرار دی جس میں اسے ایک گراؤنڈ سے دوسرے گراؤنڈ بھی نہیں جانا پڑرہا ہے جبکہ دوسری ٹیمیں ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کررہی ہیں۔

جس سے ان کی کارکردگی کا موازنہ انڈیا سے نہیں کیا جاسکتا۔ انڈیا کو سفر کے ساتھ ایک ہی ماحول آب وہوا اور رہائش کے لیے ایک یکساں مقام کی سہولت میسر ہے۔ جس سے کھلاڑی ذہنی طور پر آسودہ ہیں۔ جبکہ دوسری ٹیمیں الجھن اور کوفت کے حالات میں دوچار ہی۔

یہ دبئی ہے یا ممبئی

انڈیا کی ٹیم نے دبئ میں اپنے تینوں میچ جس طرح کھیلے اور ان کی حکمت عملی پوری طرح کامیاب رہی اس نے مزید سوالات اٹھادئیے ہیں۔ دبئ کی پچ بیٹنگ کے لیے موزوں ہونے اور بڑے اسکور بننے کے لیے مشہور ہے لیکن تینوں میچوں میں 250 سے بھی کم اسکور ہونے پر ماہرین حیران ہیں کہ کس طرح انڈیا کی بولنگ لائن بالکل پچ کے مطابق رہی اور کسی بھی ٹیم کو بڑا اسکور نہیں کرنے دیا۔

پچ پر جس طرح کلائی کے اسپنرز نے بولنگ کی اور گیند کو اپنی ضرورت کے مطابق گھمایا وہ حیران کن ہے۔ ماضی میں دبئ کی پچ پر فاسٹ بولرز کو بھی اتنی ہی مدد ملتی تھی جتنی اسپنرز کو اور بیٹنگ بھی آسان ہوتی تھی لیکن اس دفعہ اسپنرز کو کھیلنا مشکل ہوگیا ہے۔

پچ پر موجود اسپاٹ کے باعث رسٹ اسپنرز کی گیند میں بہت زیادہ تغیر ہے۔ کلدیپ یادو نے پاکستان کے خلاف اور ویرون چکربرتی نے نیوزی لینڈ کے خلاف پچ کا بہت عمدہ استعمال کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچ باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایسی بنائی گئی۔

عام طور پر آئی سی سی ایونٹس میں پچز کو بیٹنگ کے لیے موزوں بنایا جاتا ہے تاکہ تماشائیوں جو بھرپور تفریح ملے۔ لاہور اور کراچی میں زبردست بیٹنگ پچز بنائی گئی جبکہ دبئی میں اسپنرز کی جنت بنادیا گیا۔

حالانکہ نیوزی لینڈ کے پاس بھی عمدہ اسپنرز ہیں لیکن وہ اسی وقت آزمودہ ہیں جب پچ پر نشان پڑچکے ہوں لیکن انڈین اسپنرز نے اس کے خلاف حکمت عملی بنائی اور گیند میں زیادہ اچھال رکھی جس سے گیند زیادہ اسپن ہوئی۔

تینوں میچوں کی پچز آئی سی سی نے بنائی لیکن آئی سی سی کو کس نے بتایا کہ اسپن بننی چاہئیے۔  ایک غیر متوقع پچ نے بہت سے شکوک قائم کردئیے ہیں

آسٹریلیا سے انتقام کا موقع

گزشتہ ورلڈ کپ کے فائنل میں جب آسٹریلیا نے انڈیا کی ٹیم کو شکست دی تھی تو سب کو حیرانی ہوئی تھی۔ کیونکہ انڈیا مسلسل 10 میچ جیت کر فائنل میں پہنچا تھا۔  اور انڈیا کے ایک ارب لوگوں کو جیت کا یقین تھا۔ لیکن آسٹریلیا نے سارے خواب خاک کردئیے تھے۔

اب چیمپئینز ٹرافی کے سیمی فائنل میں دبئی میں جب منگل کی دوپہر دونوں ٹیمیں میدان میں آئیں گی تو انڈیا انتقام کے جذبے سے آئے گا تاکہ بدلہ کی آگ بجھ سکے۔ مذکورہ سیمی فائنل میں انڈیا کی وہی ٹیم ہوگی جو گزشتہ تین میچ کھیل چکی ہے تاہم آسٹریلیا ایک یا دو تبدیلیاں کرے گا توقع ہے کہ ایک اور اسپنر کو شامل کیا جائے گا۔

تنویر سنگھا دوسرے اسپنر ہیں لیکن ناتجربہ کار ہیں اس لیے آسٹریلیا ناتھن ایلس کی جگہ شامل کرتے ہوئے کئی بار سوچے گا۔  اگر آسٹریلین بلے باز انڈین اسپنرز کو کھیل سکے تو نتیجہ کچھ بدل سکتا ہے۔ اور لاہور کے تماشائی فائنل میچ کا مزہ اٹھاسکتے ہیں

لاہور یا دبئی

پہلا سیمی فائنل دو ٹیموں کا ہی نہیں بلکہ لاہور اور دبئی کی قسمت کا بھی فیصلہ کرے گا۔  یہ عجیب ٹورنامنٹ ہے جس میں فائنل سے چار دن قبل تک فائنل میچ کے گراؤنڈ  معلوم نہیں۔ دونوں جگہ براڈکاسٹ۔  سیکیورٹی  کیٹرنگ سے لیکر ٹرانسپورٹ۔  ائیرلائن۔ والے انتظار میں بیٹھے ہیں۔  شاید لاٹری کی قرعہ اندازی کا اتنا انتظار نہیں ہوتا جتنا اس سیمی فائنل کا ہورہا ہے۔

ایک طرف انڈیا اور دبئی میں، انڈیا کی جیت کی دعائیں اور دوسری طرف لاہور کے باسی۔ جن کی دلچسپی بس اتنی کہ فائنل لاہور میں ہوجائے ورنہ اپنی ٹیم تو بہت پہلے ہی اداسی کی شام بکھیر کر رات کے اندھیروں میں گم ہوچکی ہے۔

نہ اس کا کوئی تذکرہ اور نہ اسکی کوئی یاد  بس اب تو اتنی سی تمنا ہے کہ حق میزبانی کا آخری دور تو مل جائے اور زندہ دلان لاہور کی محبت والفت کے انداز مزید دکھا دیں۔  ہم زندہ دلان لاہور ہاتھوں پھول اٹھائے منتظر ہیں کہ کرکٹ کا سب سے بڑا میچ لاہور میں ہوسکے۔

سید حیدر