Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

چین: بیٹے کی جان بچانے کےلیے باپ کا انوکھا کام

Now Reading:

چین: بیٹے کی جان بچانے کےلیے باپ کا انوکھا کام

کرونا وائرس کی وجہ سے معمولات زندگی بے حد متاثر ہوئےہیں اور علاج و معالجے کی سہولیات میں بھی خلل پیدا ہوا ہے۔

چین میں ایسی ہی پریشانی کا شکار ایک والد نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے خود دوا بنانا شروع کردی۔

چین کے شہر کنمنگ میں ژہو وئے نامی شخص نے اپنے بیٹے کا علاج کرنے کے لیے خود دوا بنانے کی ٹھان لی۔

ان کا 2 سالہ بیٹا ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کی دوا چین میں میسر نہیں ہے، اور ان کے بیٹے کے پاس صرف چند ماہ کا ہی وقت ہے۔

30 سالہ ژہو کا بیٹا ہاؤیانگ مینکس سنڈروم میں مبتلا ہے۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں انسانی جسم میں موجود کوپر کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ کوپر دماغ کی نشونما کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔اس بیماری میں مبتلا کوئی بھی شخص تین برس سے زیادہ عرصہ نہیں جی پاتا۔

Advertisement

کرونا وائرس کی وجہ سے چین کی سرحدیں بند ہیں اور ژہو اپنے ننھے بچے کے علاج کے لیے اسے ملک سے باہر بھی نہیں لے جا سکتے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے خود دوا بنانے کی ٹھان لی۔

ژہو وئے نے اپنے گھر میں ہی والد کے جم میں ایک لیبارٹری کی بنیاد رکھی جس میں انہوں اپنے بیٹے کی لاعلاج بیماری کے لیے دوا بنانے کا عمل شروع کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ مینکس سینڈروم سے متعلق زیادہ تر معلومات انگریزی زبان میں تھی اور انہوں نے لیبارٹری بنانے سےقبل ان معلومات کو سمجھنے کے لیے ٹرانسلیٹنگ سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے اسے سمجھا۔

اب ژہو اپنے بیمار بیٹے کو روزانہ گھر میں تیار کی جانے والی دوا کی خوراک دیتے ہیں جو ان کے بیٹے کے جسم میں کوپر کی وہ مقدار فراہم کرتی ہے جو اس کے جسم میں موجود نہیں۔

ژہو کا دعویٰ ہے کہ بیٹے کا علاج شروع کرنے کے دو ہفتوں بعد ہی اس کے خون کے چند ٹیسٹ کے نتائج نارمل آئے۔

Advertisement

ایک اندازے کے مطابق یہ بیماری عالمی سطح پرایک لاکھ بچوں میں سے صرف ایک بچے کو ہی لاحق ہوتی ہے، جبکہ یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

ژہو کا کہنا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں ان کی اس دوا میں بہت کم دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں اور کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اس دوا کی مارکیٹ میں طلب نہیں ہے اور اسے بہت محدود طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

ژہو نے 6 ہفتے تجربہ کرنے کے بعد پہلی دوا تیار کی تھی جسے انہوں نے سب سے پہلے خرگوش پر تجربہ کیا تھا، اس کے بعد انہوں نے اسے خود پر بھی تجربہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دوا کی خوراک دینے کے بعد خرگوش بالکل ٹھیک تھے جبکہ انہیں بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ دوا اپنے بیٹے کو دینے کا فیصلہ کیا۔

ژہو کی بیٹے کے علاج کے لیے کاوشوں نے عالمی بائیو ٹیک لیب ویکٹر بلڈر کو بھی اس بیماری کے علاج کے لیے جین تھراپی پر تحقیق شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

ویکٹر لیب کے چیف سائنس دان بروس لان کا کہنا ہے کہ وہ ژہو کے خاندان کو جاننے کے بعد ان سے متاثر ہوئے۔ اب ان کی لیبارٹری میں آئندہ چند ماہ کے اندر اس بیماری کے علاج کے لیے جانوروں پر کلینکل ٹرائلز اور تجربات کا آغاز کیا جائے گا۔

Advertisement

دوسری جانب چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے میڈیکل جینیٹکس ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ہوانگ یو کا کہنا ہے کہ بحیثیت ایک ڈاکٹر انہیں ژہو کے بارے میں جان کر بے حد شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر ہوانگ یو کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہوئے ہم اپنے میڈیکل سسٹم کو بہتر بنا کر ژہو کی طرح دیگر خاندانوں کی بہتر انداز میں مدد کر سکیں گے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مصنوعی ذہانت کا کمال، مونا لیزا بھی گلوکارہ بن گئیں
برف میں لمبے عرصے تک رہنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم
6 سیکنڈ میں تصویر میں موجود اخبار تلاش کریں!!!
دنیا کی سب سے بڑی لفٹ کہاں موجود ہے؟
استاد بارات چھوڑ کر امتحان لینے اسکول پہنچ گیا؛ ویڈیو وائرل
27 سالہ خاتون کے ہاں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر