Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

موت کی شاہراہ

Now Reading:

موت کی شاہراہ
موت کی شاہراہ

موت کی شاہراہ

گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا دین محمد گزشتہ سال ہی پاکستان سے یورپی ملک یونان گیا تھا اور اس کے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے ۔۔۔۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک بڑا فریج دین محمد کے گھر گاڑی سے اتارا گیا تھا اور وہ تھا بھی اتنا بڑا کہ گھر میں لے جانے کیلئے دروازے کو ہی بڑاکرنا پڑا۔۔۔

آج بڑا ٹی وی آیا تو محلے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔۔

جس کے بعد ہر گھر میں بس اب ایک ہی بات تھی کہ ’بیچو مکان تے چلو یونان ‘(مکان فروخت کرو اور یونان چلو)۔۔۔

اسی محلے میں رہنے والے نوجوانوں میں رب نوازبھی تھا،،، جس نے یہ ٹھان لی تھی کہ کسی طرح وہ دیار غیر پہنچ جائے۔۔۔ ہر خطرے سے بے خبر رب نواز کے سرپر بس یورپ جانے کا جنون سوار تھا۔۔ صبح شام بس اب اسے راستہ تلاش کرنا تھا۔۔ ماں کا اکلوتا لعل جب جانے کی بات کرتا تو نورا بی بی کا کلیجہ حلق میں آجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ پررب نواز تو کچھ سسنے کو تیار ہی نہ تھا

مستقبل کے سہانے خواب اب اسے سونے بھی  نہ دیتے تھے۔۔۔ایک دن ایک دوست سے خواہش کا اظہار کیا تو اس نے اٹلی سے آئے دوست کا تعارف کرایا،، جس نے رب نواز کو ایجنٹ سے ملوایا۔۔۔۔۔ پہلے تو اس ایجنٹ نے نخرے دکھائے اور بہانے بنائے مگر تھوڑی دیر بعد مدعے پر آیا اور 10 لاکھ کا تقاضہ کیا۔۔۔اور ساتھ ہی سفری رسک سے بھی آگاہ کیا۔۔۔

Advertisement

 مرتا کیا نہ کرتا رب نواز نے بائیک بیچی،،، زمین گروی رکھوائی پھر بھی خرچے کی رقم پوری نہ ہونے پر ماں سے زیورات بھی مانگ لیے۔۔۔اکلوتے بیٹے کے مستقبل کے آگے ماں بھی بے بس ہو گئی۔۔ رب نواز نے رقم پوری کی اور ایجنٹ کے ہاتھ میں تھما دی۔۔۔ پاسپورٹ اور کاغذات پر کام شروع ہوا اور رب نواز سہانے سپنے بننے لگا۔۔ مقامی ایجنٹ کے بار بار چکر لگاتا۔۔ آخر کار وہ دن ٓاگیا جب ایجنٹ نے کاغذات رب نواز کو دیئے۔۔۔اس دن وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہاتھا۔۔۔۔۔

اہلخانہ کے مطابق روانگی سے ایک رات قبل رب نواز ماں کی گود میں رات بھر لیٹا رہا۔۔۔ صبح ہوتے ہی  اپنی بچپن کی محبت سکینہ سے ملا۔۔۔۔ جدائی کے غم کے ساتھ روشن مستقبل کی چمک زیادہ تھی۔۔ آخر وہ دن آگیا جب ماں کو روتا چھوڑ گیا۔۔جاتے ہوئے سکینہ کی آنکھوں میں آنکھیں بھی نہ ڈال سکا

اور بس سفر رخصت لیا اور منزل کی جانب نکل گیا۔۔۔

رب نواز سمیت دیگر نوجوانوں کا گروپ ایجنٹ کے ذریعے اٹلی جانے کیلئے روانہ ہوئے ۔۔جس نے مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر لیبیا اور وہاں سے سمندری راستے سے یورپ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔۔

اور پھر وہ دن بھی آگیا،،، جب سارے خواب ڈوب گئے ،،رب نواز اور اس جیسے کئی نوجوان سمندر کے بے رحم موجوں کا نوالہ بن گئے۔۔۔۔

چار دن تو ماں سے روز بات کرتا لیکن پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔۔۔۔۔۔اور پھر کبھی نہ جڑا۔۔۔ خبر آئی تو بس۔۔۔ رب نواز کی موت کی۔۔۔۔۔۔

Advertisement

رب نواز  کو یاد کرتے ہوئے بار بار اشک بار ہوتے ہوئے ماں جی نے ہمیں بتایا کہ ۔۔۔۔ کہتا تھا امی گھبرانا نہیں،، آپ کی مجبوری ختم ہو جائے گی،،،۔ آپ کا علاج کروائیں گے آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تو رب نواز کی کہانی تھی لیکن اس جیسی کتنی ہی کہانیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد گھوم رہی ہیں۔۔۔۔۔

دیار غیر جانے والے افراد کی تعداد

Advertisement

پاکستان میں اس وقت 18 سے 35 سال کے نوجوانوں  کی تعداد تقریباً 5 کروڑ 71 لاکھ ہے۔۔۔ لیکن مہارت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک کے اندر اور بیرون ملک اچھی ملازمت نہیں مل رہی۔۔۔۔‘

بنگلہ دیش اور بھارت سمیت دیگر ایشیائی ممالک اپنے لوگوں کو اعلٰی تربیت دے کر اس وقت عالمی منڈی پر راج کررہے ہیں۔۔۔۔۔

دنیا بھر میں وفاقی سطح پر محنت کی وفاقی وزارت موجود ہے لیکن پاکستان میں 18ویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔۔۔۔‘

وفاقی حکومت آئی ایل او سمیت دیگر ممالک اور تنظیموں سے معاہدے کرتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کی ذمہ داری صوبوں پر ڈال دیتی ہے۔ جس وجہ سے کافی مشکلات آتی ہیں۔۔۔

Advertisement

پاکستان اور آئی ایل او

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)  کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35 لاکھ افراد سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، کان کنی اور شپ یارڈ جبری مشقت کے بڑے گڑھ ہیں۔۔۔۔

 آئی ایل او کے 136 کنونشنز میں سے پاکستان نے صرف 37 کی توثیق کر رکھی ہے۔

پاکستان سے متعلق آئی ایل او کے اعداد و شمار جاننے کیلئے جب ہم نے پاکستان میں تعینات پراجیکٹ ہیڈ سے رابطہ کیا تھا تو آئی ایل او کے نمائندے ڈاکٹر فیصل اقبال  کا کہنا تھا کہ پاکستان جبری مشقت لینے والا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ عالمی لیبر مارکیٹ میں پاکستان لیبر فورس کے لحاظ سے نواں بڑا ملک ہے۔۔۔۔

ڈاکٹر فیصل اقبال نے بتایا کہ جبری مشقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں جبری مشقت کی انڈسٹری 236 بلین ڈالر کی ہے۔ اِس انڈسٹری سے جڑے افراد جبری مشقت کے تحت لوگوں سے ناجائز منافع کماتے ہیں جس میں نجی سیکٹر کے لوگ زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔۔۔ انہوں نے پاکستان میں جبری مشقت کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 24 سے 32 لاکھ لوگ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔۔۔۔

Advertisement

جبری مشقت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی حکومتیں کام تو کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان کے اِن فارمل سیکٹر خاص طور پر زراعت میں اِن قوانین کا پوری طرح اطلاق نہیں ہوتا۔۔۔۔

ڈاکٹر فیصل اقبال کے مطابق جبری مشقت کرنے والے افراد سوشل سیکیورٹی کی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں جب کہ ان کے بچے بھی اسکول نہیں جا پاتے۔ لہذٰا وہ مختلف نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 

آئی ایل او ڈائریکٹر

آئی ایل او پاکستان کے ڈائریکٹر گیئر تھامس ٹونسٹول کا بھی اس حوالے سے کہنا ہے  آئی ایل او کے 136 کنونشنز میں سے پاکستان نے صرف 37 کی توثیق کر رکھی ہے۔ اس وجہ سے بعض جگہوں پر آئی ایل او کا دائرہ کار بھی محدود ہو جاتا ہے۔ چونکہ آئی ایل او ایک سفارتی ادارہ ہے اور خود کسی جگہ پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتا بلکہ رہنما اصول تیار کرتا ہے جس کی روشنی میں حکومتیں عمل درآمد کرتی ہیں۔

پاکستان میں خاص طور پر مہاجر مزدوروں کی حالت تشویشناک ہے جو غیر مہاجرین کی نسبت تین گنا زیادہ جبری مشقت کا شکار ہوتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں 6.5 ملین سے زیادہ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرون ملک ملازمت کی تلاش میں گئے ہیں،

Advertisement

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 24کروڑ آبادی میں سے تقریباً 90 لاکھ پاکستانی دنیا کے 115 مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔ اوورسیز پاکستانی مجموعی طور پر پاکستانی آبادی کا تقریبا چار فیصد بنتے ہیں۔ تاہم ان کی طرف سے بھجوائی جانے والی ترسیلاتِ زر تقریباً ہماری مجموعی ایکسپورٹس کے برابر ہیں۔۔۔

پاکستانی 1971ء سے دنیا کے مختلف ممالک میں کام کی غرض سے جارہے ہیں۔ وزارت سمندر پار پاکستانی کے مطابق 1971ء سے 2020ء کے درمیان ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمت کیلئے 54 ممالک منتقل ہوئے۔ 2015ء میں ساڑھے 9 لاکھ کے قریب پاکستانیوں نے بیرون ملک ہجرت کی۔ پاکستان سے ہجرت کرنے والے 80 فیصد کے قریب لوگ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔

 

Advertisement

منافع کمانے والے ایجنٹس

جو مزدور ویزے کیلئے ایجنٹ پر انحصار کرتے ہیں وہ کئی بار دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ کبھی ان کو وزٹ ویزے پر بھیج دیا جاتا ہے جو تین ماہ بعد ختم ہوجاتا ہے اور کبھی ان کو کسی ایسے ویزے پر بھیج دیا جاتا ہے جس کا انہیں تجربہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک شخص جس نے کبھی کار نہیں چلائی اگر اسے ڈرائیور کا ویزے دے کربھیج دیا جائے تو اس کا استحصال ہی ہوگا۔ کام کے لیے خلیجی ممالک جانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے مقابلے میں تنخواہیں بہت کم ہیں۔ ایک عام تعمیراتی مزدور، سیکیورٹی گارڈ یا ڈرائیور ایک ماہ میں ایک ہزار سے ڈھائی ہزار درہم تک ہی کما پاتا ہے۔

ہرسال تقریباً 8 لاکھ پاکستانی بیرون ملک جاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے اپنے گھروں کو رقم بھیجتے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا تقریباً 8.5 فیصد بنتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 2024ء کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 30 ارب ڈالرز کی ترسیلات وطن بھیجیں۔

انسانی اسمگلر اور جرائم پیشہ عناصر جبری مشقت کے ہر متاثرہ سے تقریباً 10 ہزار ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔

یورپی اور امریکی منڈیاں جنت سے کم نہیں

Advertisement

یورپ اور وسطی ایشیا میں جبری مشقت سے 84 ارب ڈالر منافع ہوتا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ایشیا اور الکاہل خطے میں اس غیرقانونی طریقے سے 62 ارب ڈالر، براعظم ہائے امریکہ میں 52 ارب ڈالر، افریقہ میں 20 ارب ڈالر اور عرب ممالک میں 18 ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ بنیادی طور پر دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک زمینی اور دوسری فضائی راستوں سے۔ زمینی راستے سے اکثر پاکستان کی ایران کے ساتھ انتہائی طویل سرحد انسانوں کے اسمگلروں کے لیے بہترین روٹ ثابت ہوتی ہے۔

ممتاز ماہر قانون نے بتایا کہ اسمگلر عام طور پرسادہ لوح افراد کو امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں داخلے کے خواب دکھا کر مال بٹورتے ہیں اور کشتیوں میں بٹھا کر یونان، فرانس، ہالینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں لے جانے کے جھانسے دیتے ہیں۔ ’’اس طرح وہ ایسے افراد کی عمر بھر کی کمائی لوٹ لیتے ہیں اور بہت سے لوگ تو یورپ جانے کے شوق میں موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔۔۔۔پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کا سرکاری سطح پر مرکزی ریکارڈ ایف آئی اے کا ادارہ رکھتا ہے۔۔۔

وزارتِ اوورسیز پاکستانی

ہمارے رابطہ کرنے پر وزارتِ اوورسیز پاکستانی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان بیرون ملک افراد کی تعداد دوگنی کرنا چاہتی ہے۔ منصوبہ ہے کہ ہر سال دس سے بیس لاکھ پاکستانیوں کو کام کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلی دہائی میں 6.5 ملین سے زیادہ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرون ملک ملازمت کی تلاش میں گئے۔۔۔

Advertisement

استحصالی عناصرفی کس سالانہ 27 ہزار ڈالر سے زیادہ کماتے ہیں اور یہ دیگر اقسام کی جبری مشقت سے حاصل ہونے والی فی کس آمدنی 3600 ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے توسط سے جمع ترسیلات

جون 2024 میں بیرون ملک مقیم کارکنوں کی جانب سے ترسیلات زر کی مالیت 3.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ گزشتہ سال جون کی نسبت 44.4 فیصد زیادہ ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 24ء کے دوران مجموعی طور پر کارکنوں کی ترسیلات زر کی مد میں 30.3 ارب ڈالر رقوم کی آمد ہوئی اور ان میں 10.7 فیصد اضافہ درج کیا گیا، جبکہ مالی سال 23 میں 27.3 ارب ڈالر رقوم کی آمد ہوئی تھی۔

بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق مالی سال 24 کے پہلے 11 مہینوں کے دوران بیرون ملک ملازمت پذیر پاکستانیوں کی جانب سے 27.093 بلین ڈالر کی ترسیلات زر ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2023 کے 11 ماہ کے دوران 25.146 بلین ڈالر کی ترسیلات کے مقابلے میں 7.7 فیصد زیادہ ہے۔۔۔۔۔

یورپی یونین سے ترسیلات زر میں سالانہ بنیادوں پر 36.4 فیصد اضافہ ہوا کیونکہ مئی 2024 میں یہ رقم 340 ملین ڈالر رہی۔ ماہانہ بنیادوں پر اس میں 14.1 فیصد اضافہ ہوا۔

Advertisement

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے مئی 2024 میں 359.5 ملین ڈالر بھیجے جو کہ ماہانہ بنیادوں پر 9 فیصد اضافے کے ساتھ 39.7 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔۔۔۔

مگر آخر رب نواز جیسے نوجوان اپنا گھر ،والدین چھوڑ کر ملک سے باہر جانے پر مجبور کیوں؟؟۔۔۔۔

شاید اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں عدم توازن یا جبری مشقت اور فیئر ریکروٹمنٹ نہ ہونا ہے۔۔۔۔ تعلیم یافتہ نوجوان ہو یا ہنر مند پاکستان میں انہیں ان کی محنت کا صحیح صلہ ملنا آسان نہیں۔۔ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کو وقت پر تنخواہ ملتی ہے نہ ہی  کوئی سوشل سیکیورٹی دی جاتی ہے۔۔۔ دوران ملازمت کوئی زخمی ہوجائے،،،، یا جان سے جائے صرف چند فیکٹریوں کے علاوہ کوئی بھی اپنے ملازم کیلئے کچھ نہیں کرتا۔۔۔۔ ایسے میں نوجوان جان کا رسک لیتے ہوئے ملک سے نکل جانے کو عافیت جانتے ہیں اور ٓاجکل کے مایوس کن ماحول میں کیا  زندہ بھاگ کا نعرہ حقیقت کی ترجمانی نہیں کررہا ۔۔سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم سے بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد کی ملاقات
کراچی، عمارت کے نیچے قائم پیٹرول پمپ میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی
سیاسی حریف ٹرمپ اور ہیرس کی نائن الیون یادگار پر ایک ساتھ حاضری
تحریک انصاف کے گرفتار 10 ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری
پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کو بند کرنے کی سفارش
فلسطین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نئی نشست مل گئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر