پی آئی اے کی نجکاری؛ سرمایہ کاری کے چیلنجز اور حکومت کی ناکام بولی
منیجنگ ڈائریکٹر جیریزگروپ اکرم ولی محمد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے کیلئے لگائی گئی بولی ناکام ہوئی ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر جیریزگروپ اکرم ولی محمد نے بول نیوز کے پروگرام بیوپار میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو پرائیویٹائزیشن کا عمل حکومت نے پی آئی آئے کیلئے کیا ہے اس میں کوئی شک و شبہہ کی بات نہیں ہے، پی آئی اے ایک عرصہ دراز سے پرائیویٹائزیشن کے عمل کا حصہ رہی ہے جو ابتک مکمل نہیں ہو پارہا۔
انہوں نے کہا کہ جب پی آئی اے کی بولی لگنے کا عمل شروع ہوا تو بہت اچھے اچھے بڈرز آئے تھے اور ہم خود بھی اس میں شامل تھے، لیکن جیسے جیسے ہم اس پروسیس میں آگے بڑھے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بیچنے والے کو یہ نہیں پتا کہ وہ بیچے کیسے اور خریدنے والے کو یہ نہیں پتا کہ وہ خریدے کیسے۔
اکرم ولی محمد نے کہا کہ جب آپ کسی چیز کو بیچتے ہیں تو اس کو پہلے اچھی حالت میں لاتے ہیں اور پھر بیچتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے اثاثوں کی حالت اور ادارے کے جو حالات ہیں اس کیلئے سوالات کے جوابات تیار نہیں کیے گئے تھے، کہ ملازمین کی تنخواہوں کا کیا بنے گا؟ اب سوال یہ ہے کہ خریدیں کیسے؟ اتنا بڑا کیپیٹل ہونا چاہیے نا کہ خرید سکیں کیونکہ صرف شیئرز تو نہیں خریدنے۔
منیجنگ ڈائریکٹر جیریزگروپ نے کہا کہ اگر آپ کو ایئر لائن کو چلانا ہے ایک بین الاقوامی معیار پر تو اس کو چلانے کیلئے آپ کو بہت بڑا سرمایہ چاہیے، اور اگر حکومت کے 60 فیصد یا 30 فیصد شیئرز ہوں گے تو حکومت مزید پیسہ ڈالے گی؟ ملازمین کا کیا ہو گا جو بیروزگار ہوں گے؟ کیا ان ملازمین کیلئے کوئی پروگرام ہے؟ اگر ان تمام سوالات کے جوابات نہیں ہیں اور ہماری پروڈکٹ اتنی کمزور ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگوں کے پاس سرمایہ کاری کرنے کیلئے اور بہت سی چیزیں موجود ہیں۔
پروگرام میں میزبان نے سوال کیا کہ کہاں تک جاسکتا تھا آپ کا گروپ یا دیگر بڈرز؟ وہ کتنی بڈ لگاتے چونکہ بلیوورلڈ سٹی نے 10 ارب لگائی جو حکومت کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے۔
سوال کا جواب دیتے ہوئے اکرم ولی محمد نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں، میری بھی ذاتی رائے یہی ہے کہ اس وقت پاکستان کے اندر کوئی بھی ایک پارٹی اتنی بڑی انڈر ٹیکنگ نہیں لے سکتی، اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتی۔ آپ کو بہت اسٹرونگ سرمایہ کار چاہیے اور انڈسٹری سے منسلک لوگ اس کے اندر آئیں کیونکہ ان کا اسٹیک ہوتا ہے، انکی ساکھ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بڈرز آئے تھے، میں انکے نام نہیں لوں گا، وہ بہت اسٹرونگ تھے، حکومت کو چاہیے تھا کہ انکے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے، انکے سوالات کے جوابات دیتے، انسے ڈیل بناتے، کیونکہ یہ اس طریقے سے نہیں بیچ سکتے جیسے یہ بیچ رہے، خدانخواستہ انکو یہ بند ہی نا کرنا پڑجائے۔ کیونکہ نہ اسکو کوئی لینے کو تیار ہے اور نہ آپ بیچنے کو۔
پروگرام میں میزبان نے سوال کیا کہ النہانگ گروپ کی جانب سے ایک آفر سامنے آئی ہے کہ وہ 125 ارب دینے کیلئے تیار ہیں تو کیا آپ کی نظر میں حکومت اس آفر کو قبول کرے گی یا نہیں؟ اور صوبائی حکومت نے بھی آفر کر دی ہے تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
سوال کے جواب میں اکرم ولی محمد نے کہا کہ دیکھیں یہ صوبائی یا وفاقی حکومتوں کا کام ہی نہیں ہے کہ وہ ایئر لائن چلائے۔ ہم چلا کر دیکھ چکے ہیں اب دوبارہ یہ نہیں کرنا، تجربے کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو سنجیدہ پارٹیاں آئی ہیں ان سے گفتگو کرنا ہو گی کیونکہ پہلے ہی اس پروسیس کی وجہ سے ہم پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ یہ ایک مذاق بن چکا ہے۔
میزبان نے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے کیونکہ حکومت نے ہی بولی کا کہا جبھی بہت سی پارٹیاں آئیں اور انہوں نے بولی لگائی۔
سوال کے جواب میں منیجنگ ڈائریکٹر جیریزگروپ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ایکسپریس نہیں کر رہی، یا اپنی پوزیشن سے لوگوں کو آگاہ نہیں کر رہی، لیکن بات یہ ہے کہ یہ بڈ تو ناکام ہوئی ہے، جو پی آئی اے کی بک ویلیو سے اتنی نیچے چلی گئی۔
اسی پروگرام میں عارف حبیب گروپ کے چیئرمین سے میزبان نے سوال کیا کہ آپ نے اس بڈ سے بیک آف کر دیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟
سوال کے جواب میں چیئرمین عارف حبیب گروپ نے کہا کہ ہمارے بعض فارن سرمایہ کاروں نے جوائن نہیں کیا اس لیے ہم پی آئی اے کی خریداری میں بڈ نہ کرسکے، نجکاری نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اداروں کی نجکاری کیلئے وقت لگتا ہے، اوراس کی گراؤنڈ کی حیقیت معلوم کرنے میں ٹائم لگتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News