اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے 3 حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے کیسز سے متعلق محفوظ شدہ فیصلہ سنادیا۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے تینوں امیدوارں عبدالرحمان کانجو، ذوالفقار احمد اور اظہر قیوم ناہرا کو بحال کر دیا۔
اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے تحریر کیا، جس سے جسٹس نعیم افغان نے اتفاق کیا جبکہ جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور عزت کا مستحق ہے، ججز کا الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران سے متعلق غیرضروری ریمارکس دیے، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے مسلم لیگ کے ارکان کی قومی و صوبائی اسمبلی میں بحالی کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق جیت کا مارجن پانچ فیصد سے کم ہونے پر دوبارہ گنتی لازمی ہے، قومی اسمبلی نشست کیلئے ووٹوں کا فرق آٹھ، صوبائی اسمبلی کیلئے چار ہزار سے کم ہونے پر بھی گنتی دوبارہ ہوگی، دوبارہ گنتی انتخابی نتائج مرتب کرنے سے پہلے ہونا لازمی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ دوبارہ گنتی انتخابی امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کی درخواست پر ہی ہوسکتی ہے، ریٹرننگ افسران نے دوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد کرنے کی وجوہات تحریر نہیں کیں، ریٹرننگ افسران نے اپنے فیصلوں میں نہیں لکھا کہ نتائج مرتب کرنے کا عمل شروع ہوچکا تھا، ریٹرننگ افسران اپنے اختیارات ہجوم کے سامنے سرنڈر نہیں کر سکتے، ہجوم کے سامنے اختیارات سرنڈر کرنے سے خطرناک رجحان پیدا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون میں امیدواروں کو دیے گئے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ووٹوں کی گنتی کبھی بھی عدالتی یا نیم عدالتی عمل نہیں رہا، ووٹوں کی گنتی انتظامی عمل ہے جو ریٹرننگ افسر ووٹوں کا فرق دیکھ کر کرتا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے کوئی امیدوار متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟ آرٹیکل 199 کے دائرہ اختیار میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیخلاف رجوع کرنا شامل نہیں، امیدوار کسی قانونی خلاف ورزی پر دادرسی کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں، انتخابات کے کیس میں متعلقہ فورم الیکشن کمیشن یا ٹریبیونل ہی ہوسکتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں آئین کا درست جائزہ نہیں لیا، لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کو مدنظر نہیں رکھا، ججز نے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران کیخلاف غیرمناسب ریمارکس دیے، عزت اور احترام ہر شخص کا حق ہے، باعزت انداز میں کام کرنے سے اداروں کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
اختلافی نوٹ
جسٹس عقیل عباسی نے 21 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ آئین کے مطابق انتخابی تنازعات پر الیکشن ٹربیونل سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے، انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کا کردار ختم ہو جاتا ہے، انتخابی نتائج سے متاثرہ فریقن الیکشن ٹربیونل سے رجوع کر سکتے ہیں۔
اختلافی نوٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا انتخابی تنازعات پر دیا گیا حکم دائرہ اختیار سے تجاوز ہے، لاہور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازع پر نہیں الیکشن کمیشن کے اختیارات پر فیصلہ دیا، آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کسی بھی غیرقانونی اقدام کا جائزہ لینے کیلئے بااختیار ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ریٹرننگ افسر کا کام محض ڈاکخانہ نہیں ہوتا، دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنا ریٹرننگ افسر کا اختیار اور استحقاق ہے، دربارہ گنتی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ختم ہونے سے انتخابی عمل متنازع ہوگا۔
نوٹ میں مزید بتایا گیا کہ ریٹرننگ افسران اور ہائی کورٹ نے انتخابی تنازع پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دوران انتخابی تنازع پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں آئینی و قانونی سقم نہیں کہ مداخلت کی جائے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی تھی، دوبارہ گنتی پر مسلم لیگ ن کے رکن اظہر قیوم ناہرا این اے 81، عبدالرحمان کانجو این اے 154 اور ذوالفقار احمد این اے 79 سے کامیاب ہوئے تھے۔
الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی میں تینوں لیگی امیدواروں کو کامیاب قرار دیا تھا جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے دوبارہ گنتی کالعدم قرار دی تھی جس کے بعد مسلم لیگ ن کے عبد الرحمان کانجو، اظہر قیوم نہرا اور ذوالفقار احمد نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News