بنگلادیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ، جو تقریباً پچاس برس تک ملکی سیاست پر غالب رہیں، ایک طوفانی انجام سے دوچار ہوئیں۔
ڈھاکا کی خصوصی ٹریبونل نے انہیں گزشتہ سال طلبہ تحریک کے خلاف خونی کریک ڈاؤن کے الزام میں سزائے موت سنادی۔
78 سالہ حسینہ کو یہ سزا عدم موجودگی میں سنائی گئی ہے کیونکہ وہ گزشتہ برس طلبہ تحریک کے دوران ملک سے فرار ہوکر بھارت میں مقیم ہیں۔
مزید پڑھیں: شیخ حسینہ واجد مجرم قرار؛ سزائے موت کی سزا سنادی گئی
شیخ حسینہ کا سیاسی سفر خونریزی سے شروع ہوا۔ 1975 کے فوجی بغاوت میں ان کے والد اور بانیٔ بنگلادیش شیخ مجیب الرحمان سمیت ان کے خاندان کے بیشتر افراد مارے گئے، مگر حسینہ یورپ میں ہونے کی وجہ سے بچ گئیں۔
1981 میں جلاوطنی سے واپسی کے بعد وہ عوامی لیگ کی سربراہ منتخب ہوئیں اور بعد ازاں کئی بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں۔
اگرچہ انہیں بنگلادیش کی معیشت بالخصوص ملبوسات کی صنعت کو عالمی سطح پر مستحکم کرنے اور روہنگیا مہاجرین کو پناہ دینے پر سراہا گیا۔
لیکن ان کے طویل اقتدار پر سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں، میڈیا پر پابندیاں اور اختلافِ رائے کے کچلے جانے جیسے الزامات بھی لگائے گئے انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کے دور کو تقریباً یک جماعتی حکمرانی قرار دیا۔
ان کی حکومت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نظام کے خلاف طلبہ احتجاج ملک گیر تحریک میں تبدیل ہوگیا، جس میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1,400 تک افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر کو مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
شیخ حسینہ نے فیصلے کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک منصفانہ عدالت میں ثبوتوں کے ساتھ اپنی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کے فرار کے بعد عوامی غصے نے صدارتی محل تک کا رخ کیا جہاں مظاہرین نے عمارت پر ہلہ بول کر سامان باہر نکال لیا۔
اس وقت ملک کی عبوری حکومت نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں کام کر رہی ہے جبکہ عوامی لیگ کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے جو فروری کے اوائل میں متوقع ہیں۔
شیخ حسینہ کی کبھی سیاسی حریف اور کبھی اتحادی خالدہ ضیا جو خود بھی سابق وزیرِ اعظم رہی ہیں ان کی برطرفی کے بعد رہا ہوئیں یوں بنگلادیش کی طویل سیاسی رقابت ایک بار پھر تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑی نظر آتی ہے۔

