مدثرنارو لاپتا کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو 13 دسمبرتک مدثرنارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیوں نہ جس دورمیں کوئی لاپتا ہو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کی جیب سے معاوضہ لیا جائے۔ شیریں مزاری سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتا صحافی مدثرنارو کی عدم بازیابی کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ وفاقی وزیرشیریں مزاری، سیکریٹری داخلہ اورایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ کسی کو زبردستی لاپتا کرنا انسانیت کیخلاف بدترین جرم ہے۔ ہم حکمران نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔ ریاست لوگوں کے بنیادی حقوق کا تو خیال کرسکتی ہے۔ ایسے کیسز میں شہری کو مطمئن کرنا ریاست کی زمہ داری ہے۔ اس کیس میں ریاست کا کردار بہت برا تھا، ریاست ماں کے جیسی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کیس میں ماں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ کوئی اپنے پیارے کی بازیابی کے لیے عدالت آتا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ مدثرنارو کے بیٹے کو مطمئن کرے۔ مدثر نارو کی اہلیہ انتقال کرچکی ہیں۔کسی کو مطمئن نہ کیا جا سکے تو پھر ریاست ذمے دار ہے۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ زبردستی لاپتا کرنے کا مسئلہ ہمارے منشور میں شامل تھا۔ لاپتا شہریوں کے مسئلے پروزیراعظم بہت کلئیرہیں۔ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ جبری گمشدگی کسی صورت تسلیم نہیں۔ دس پندرہ سال سے لاپتا افراد کو ہم نے ریکورکیا ہے۔
عدالت نے کہا کسی آفس ہولڈر کا پیارا لاپتا ہو تو ریاست کا کیا ریکشن ہوگا؟ پبلک آفس ہولڈرعوام کی خدمت کے لیے ہیں۔ عام آدمی کا بچہ لاپتا ہو تو ریاست ہل کررہ جانی چاہئے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ ریاست کا ردِ عمل ہر مسنگ پرسن کیس میں ایک جیسا ہونا چاہئے۔ سابقہ حکومتوں نے اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی لیکن ہماری حکومت اس پر کام کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اس کو نہیں روکا جا سکتا۔ ہماری آدھی زندگی نان ڈیمو کریٹک حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا کرایا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے ایک ہفتے کی مہلت مانگی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا بات کررہے ہیں، ایک بندہ تین سال سے لاپتا ہے۔ لاپتا شخص کیس میں عدالتی حکم کے خلاف اپیل دائر کی گئی، مدثر نارو کی فیملی کو ایک ماں کی طرح وزیراعظم کے پاس لے کرجائیں۔ میں چاہتا ہوں وزیراعظم مدثر نارو کے خاندان سے ملاقات کریں۔ آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں مدثر نارو کے خاندان کو وزیراعظم سے ملوائیں۔ اس فیملی کو احساس دلائیں کہ یہ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے دوسرے لوگ ہیں۔ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، مسنگ پرسن کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو فیملی کیساتھ ملنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم کی کابینہ ارکان پرآتی ہے۔ ریاست کی بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نا ادا کریں؟ تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔ اگر کوئی 2002 میں لاپتا ہوا تو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کراسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نا کہا جائے؟ کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News