احتساب عدالت اسلام آباد نے میرشکیل کیخلاف پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ ریفرنس میں بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
میرشکیل سمیت دیگرملزموں کی بریت کی درخواستوں پر31 جنوری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت اسلام آباد کے جج اسد علی نے ملزم میرشکیل سمیت دیگر کیخلاف ریفرنس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جج اسد علی نے میرشکیل کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ احتساب عدالت کا پہلا حکم کالعدم ہو گیا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں نے کہا تھا کہ عدالت تحریری حکم آنے دیں پھر دیکھ لیں گے۔
جج اسد علی نے کہا کہ میں نے پہلی درخواست کو قبل از وقت قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
فیصل رضا بخاری نیب پراسیکیوٹرنے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ 2 گواہوں کے بیانات قلمبند ہونے ہیں۔ عدالتی حکم کے بعد ایک گواہ اظہرعلی ڈائریکٹر ٹائون پلاننگ کا بیان ہوا ہے جس پر جرح نہیں ہوئی۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گواہ جاوید بخاری کا بیان بہت اہم ہے اس کا بیان بھی قلمبند نہیں ہوا۔
جج اسد علی نے استفسار کیا کہ ملزم کی طرف سے تو کہا جا رہا ہے کہ گواہوں کے بیانات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی کیس ثابت نہیں ہوتا۔
فیصل رضا بخاری نے عدالت سے کہا کہ ملزم کی طرف سے تو یہی کہا جائے گا مگر پراسیکیوشن کا گواہ انتہائی اہم ہے۔ سید جاوید بخاری اس وقت کے وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔
فاضل جج نے استفسار کیا کہ ایل ڈی اے ایکٹ کی دفعہ 14 میں کیا لکھا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ قانون کو بعد میں پیش کریں گے اس سے پہلے گواہوں کے بیانات کو پڑھ لیا جائے۔ عدالت نے 8 ستمبر 2021ء کو میر شکیل کی بریت کی درخواست خارج کرتے ہوئے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصل رضا بخاری نے بتایا کہ عدالت نے پراسیکیوشن کو گواہ پیش کرنے سے محروم نہ کرنے کی آبزرویشن دے کرمیرشکیل کی درخواست خارج کی۔ عدالت نے وائٹ کالر کرائم میں جلد بازی نہ کرنے بھی آبزرویشن بھی دی تھی۔
فاضل جج نے امجد پرویزایڈووکیٹ سے استفسارکیا کہ نیب کے 2 گواہ اگرآ جائیں تو پھر؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میں تو ہائیکورٹ سے حکم لےکرآیا ہوں۔ عدالت جیسے مناسب سمجھے ویسے حکم کردے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم موجود نہ بھی ہو تو ملزم دس بار کیس میں بریت کی درخواست دائر کرسکتا ہے۔ نیب کو 4 پیشیاں دی جائیں سارے گواہ پیش کردیتے ہیں۔ ملزم کی طرف سے کیس کو التواء میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فیصل رضا بخاری نے کہا کہ ایک گواہ کا بیان قلمبند ہونے کے بعد 4 ماہ کا عرصہ گزرگیا کیس میں پیش رفت نہیں ہوئی۔ نیب تو چاہتا ہے کہ کیس کا قانون کے مطابق جلد فیصلہ ہو جائے۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہائیکورٹ میں جو استدعا کی تھی وہ دیکھ لی جائے جس پر جج اسد علی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ہائیکورٹ میں اس درخواست پر میرٹ پر فیصلے کیلئے زور دیا تھا؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میر شکیل نے ہائیکورٹ سے بریت مانگی تھی۔
فاضل جج نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے تحریری حکم میں تو لکھا ہے کہ آپ نے اس درخواست پر زور ہی نہیں دیا۔
امجد پرویز نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ جب مجھے ریلیف دے رہی تھی تو میں نے درخواست پر زور نہیں دیا۔
فاضل جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ بریت کی پہلی اور دوسری درخواست میں کیا فرق ہے۔ احتساب عدالت کے پہلے فیصلے کے بعد کیس میں کوئی نئے حقائق سامنے آئے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد ہائیکورٹ نے ملزم کو بریت کی درخواست پر دوبارہ فیصلے کا حق دیا ہے جس پر جج نے ریمارککس دیے کہ ہائیکورٹ میں تو آپ نے کہا کہ بریت کی نئی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں اور اسی بنیاد پر درخواست واپس لی۔
جج اسد علی نے کہا کہ اگر کوئی مواد موجود ہو تو آپ بریت کی نئی درخواست دائر کریں گے تو عدالت بریت کی درخواست پر فیصلہ کرے گی۔ اگر آپ نے 4 ماہ میں 2 گواہوں پر بھی جرح کی ہوتی تو کیس ویسے ہی مکمل کو چکا ہوتا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت ہائیکورٹ کے حکم کی روشنی میں ملزم میر شکیل کی بریت کی درخواست پر فیصلہ کرے۔ ہائیکورٹ کے حکم کی روشنی میں میرٹ پر بریت کی دوسری درخواست دی ہے۔
سید فیصل رضا بخاری نے کہا کہ امجد پرویز ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ نیب کا کیس اڑا کر رکھ دیں گے۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ کہتے تھے کہ نیب کا کیس کمزرو ہے اسی لیے میں پیش ہوتا ہوں۔ نیب کا کیس اگر اتنا کمزور ہے تو پھر گواہوں کے بیانات کیوں قلمبند نہیں کروانے دیتے۔
نیب پراسکیوٹرسید فیصل رضا بخاری نے کہا کہ نیب کے 3 سے 4 گواہ ہیں ان کے بیانات کیوں قلمبند نہیں کروانے دے رہے؟ نیب آرڈیننس کی دوسری ترمیم کا اطلاق میرشکیل کیس پر نہیں ہوتا۔
نیب پراسکیوٹراورامجد پرویز ایڈووکیٹ میں نوک جھونک
دورانِ سماعت نیب ترمیمی آرڈیننس کی کاپی پیش کرنے پرنیب پراسکیوٹر اور امجد پرویز ایڈووکیٹ میں نوک جھونک ہوئی۔
امجد پرویز نے کہا میں نے ترمیمی آرڈیننس کا چارٹ بنا کر پیش کیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت کی اجازت سے اپنی فائل دکھانا چاہتا ہوں۔ چلیں امجد پرویز ایڈووکیٹ والا چارٹ دیکھ لیں، وہ بھی ٹھیک ہوگا۔ ویسے ہائیکورٹ کا حکم جس کے بارے میں کہا گیا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم ہوگیا ہے ایسا نہیں ہوا تھا۔
نیب پراسیکیوٹرحارث قریشی نے کہا کہ اب ہائیکورٹ کا تحریری حکم بھی آ گیا جس میں احتساب عدالت کا حکم کالعدم نہیں کیا گیا۔ میر شکیل سمیت 3 ملزم ترمیمی آرڈیننس سے استفادہ کے حقدار نہیں ہیں۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق 6 اکتوبر2021 کے بعد دائر کیسز پر ہوتا ہے۔ ملزم میر شکیل کیخلاف چالان 26 جون 2020ء میں دائرکیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگرکسی قانون کا اطلاق ماضی سے مطلوب ہو تو قانون ساز خصوصی طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں۔ نیب آرڈیننس دوسری اور تیسری ترمیم کا ماضی سے اطلاق کرنے کا آرڈیننس میں کوئی ذکر موجود نہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ ملزم میر شکیل کی بریت کی درخواست مسترد کی جائے۔
امجد پرویزایڈووکیٹ نے کہا کہ 12 مارچ 2020ء کی تاریخ بڑی اہم ہے، عدالت اس تاریخ کو نوٹ کرلے۔
جج اسد علی نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر سے 2019ء کا حوالہ دیں گے جس پر کمرہ عدالت میں موجود وکلا کے چہروں پرمسکراہٹیں آئیں۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملزم میر شکیل کیخلاف پہلے دن سے غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہے۔ دوسرا نیب ترمیمی آرڈیننس واضح نہیں تھا اس لے تیسرا نیب ترمیمی آرڈیننس لایا گیا۔
میر شکیل کے وکیل نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس میں منی لانڈرنگ کیسز پر ماضی سے اطلاق کی شرط عائد کی گئی ہیں۔ اگرتیسرے ترمیمی آرڈیننس کا ماضی سے اطلاق مقصود نہ ہوتا تو ترمیم میں مشروط پیرا شامل نہ ہوتا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News