کووڈ 19 کے دیرپا منفی اثرات میں دماغ کے متاثر ہونے کی کئی خبریں منظرِ عام پر آچکی ہیں، تاہم اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا سے متاثرہ شخص کا دماغ کئی عرصے تک دھندلاہٹ کا شکار رہتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے بعد مریضوں میں (برین فوگ) دماغی دھند کا شکار ہونے کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہاں سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر (برین فوگ) یعنی دماغی دھند کیا ہے؟
دراصل “دماغی دھند” کوئی طبی اصطلاح نہیں ہے اور نہ ہی اس کا نام ماہرین کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے ہارورڈ ہیلتھ کا کہنا ہے کہ دماغی دھند کی اصطلاح کورونا سے متاثرہ مریض یہ بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ جب ان کی سوچ سست، دھندلی اور تیز نہ ہو تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
یعنی ماضی میں کورونا کا شکار ہونے والے مریض کورونا کے دیرپا مدتی اثرات میں ایک یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کا دماغ سستی کا شکار ہے وہ صحیح سے سوچ نہیں پاتے اور ان کی یادداشت دھندلی ہو گئی ہے۔
یوں تو ہم سب کو کئی عوامل کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت اس برین فوگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کووِڈ کے بعد اس پیچیدگی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے دماغی دھند نے سب کی توجہ مبذول کر لی ہے۔
یاد رہے کہ کورونا کی طویل مدتی علامات میں سے ایک، دماغی دھند کورونا وائرس کے انفیکشن سے صحتیاب ہونے کے کئی مہینوں بعد بھی برقرار رہتا ہے۔
اور کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے کے بعد دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے دماغی دھند کا شکار ہونے کی اطلاع دی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی نتائج پر مبنی ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جنہیں کووِڈ تھا مگر اس کے دیرپا اثرات اور علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں ان کی بھی کووِڈ کے بعد توجہ کرنے کی صلاحیت اور یادداشت چھ سے نو ماہ تک خراب تھی۔
آکسفورڈ کے شعبہ تجرباتی نفسیات اور نففیلڈ ڈیپارٹمنٹ آف کلینیکل نیورو سائنسز کی طرف سے کئے گئے مطالعہ میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ جہاں لانگ کووِڈ کے مریضوں میں یادداشت کمزور ہونے، منصوبہ بندی میں مشکل، اور توجہ رکھنے کی صلاحیت میں کئی ماہ مشکل کا سامنا رہا وہیں خوش قسمتی سے زیادہ تر لوگوں کی یادداشت اور توجہ چھ سے نو ماہ کے بعد معمول پر آگئی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News