Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

یوکرین تنازع کیا ہے؟ امریکہ، روس آمنے سامنے

Now Reading:

یوکرین تنازع کیا ہے؟ امریکہ، روس آمنے سامنے
یوکرین تنازع کیا ہے؟ امریکہ، روس آمنے سامنے

30  دسمبر 2021 کو امریکہ اور روس کے صدور کے مابین 50منٹ طویل بات چیت ہوئی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کو متنبہ کیا کہ یوکرین کے مسئلے پر نئی پابندیوں کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں دراڑ آسکتی ہے۔ دوسری طرف بائیڈن نے پوتن کو باور کرایا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین میں مداخلت کی صورت میں فوری ردعمل دینے کے مجاز ہوں گے۔

اطلاعات کے مطابق، روس نے اپنے 90ہزار فوجی یوکرین کی سرحدوں پر پہنچا دیے ہیں، محتاط امریکی اندازوں کے مطابق یہ تعداد فروری تک 175000 تک جا سکتی ہے۔ نیز، روس نے ٹینکس اور بھاری توپ خانہ بھی سرحد پر پہنچا دیا ہے۔ دوسری جانب، مغربی اتحاد نیٹو نے بھی فوجی تیاری شروع کردی ہے۔

 تاہم روس نے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین میں فوجی مداخلت کرنے جا رہا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس کی افواج وہاں مشقیں کر رہے ہیں۔ روس کے مطابق وہ اپنے فوجیوں کو اپنی سرزمین پر کہیں بھی تعینات کر سکتا ہےاور وہ اس حوالے سے کسی قسم کا پابند نہیں۔

رواں ماہ جنیوا میں امریکی اور روسی نمائندگان کے درمیان مذاکرات متوقع ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب سے سفارتی حل تلاش کرنے کی گزارش کی ہے۔

یوکرین کے وزیردفاع نے پارلیمان کو بتایا ہے کہ پچھلے برس دسمبر کے آغاز میں روس نے سرحد کے قریب ہزاروں فوجی تعینات کیے جو جنوری 2022 کے اواخر میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Advertisement

دوسری جانب روس نے کہا ہے کہ سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی مغربی اتحاد نیٹو کے خلاف ایک حفاظتی اقدام ہے۔ روس نیٹو سے ضمانت چاہتا ہے کہ وہ مشرق میں مزید نہیں پھیلے گا اور مخصوص ہتھیار یوکرین اور اس کے ہمسایہ ممالک میں نہیں بھیجے جائیں گے۔

یاد رہے کہ یوکرین کو تاحال نیٹو کی رکنیت کی پیشکش نہیں کی گئی لیکن اس کے مغربی اتحاد سے قریبی تعلقات ہیں۔

اس تصادم کا پس منظر جاننے کیلئےہمیں مارچ 2014 میں جانا ہوگا۔

مارچ 2014 وہ سال کہ جس میں  یوکرین کے خطے کریمیا کا روس کے ساتھ الحاق عمل میں آیا۔ روس اور یوکرین کے درمیان سرحدی کشیدگی نئی بات نہیں۔ یوکرین، روس اور یورپ کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ یوکرین روس کا حصّہ تھا، اِسی لیے وہاں روسی زبان بولنے والوں کی کثیر  تعداد موجود ہے۔

سال2014 ء میں یوکرین کے تنازعے نے جب زور پکڑا، تو وہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ اِن مظاہروں کی وجہ یہ تھی کہ یوکرین کے صدر روس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے، اسکے بر عکس شہریوں کی اکثریت اُسے مشرقی یورپ کے ساتھ رکھنا چاہتی تھی۔ مظاہروں نے شدّت اختیار کی تو یوکرین کے صدر نے مُلک سے فرار ہوکر روس میں پناہ لے لی۔ اس پر مظاہرے تھمے اور نئے صدر کا انتخاب ہوا، لیکن خانہ جنگی کی سی کیفیت ہنوز برقرار رہی۔

 روس نے یوکرین کے مشرقی حصّے میں (جہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے) جنگ برپا کرکے کریمیا پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ میں لگ بھگ 14 ہزار افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 15لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

Advertisement

اوباما دور میں اس جنگ کو نیٹو کی ایک بدترین ناکامی کہا گیا۔ یہ جنگ صدر، پوتن کے’’ آئرن مین‘‘ کے طور پر سامنے آنے کی بھی وجہ بنی۔

 بقول مغربی میڈیا کہ’’ پوتن نے ہرمحاذ پر صدراوباما کو بونا دِکھایا اور نیٹو اتحاد بے اثر رہا تاہم، کچھ ہی عرصے بعد مغربی طاقتوں نے نئی حکمتِ عملی اختیار کی اور روس کو بے بس کردیا۔ اُنھوں نے روس پر اقتصادی پابندیاں لگانی شروع کردیں اور وقت کے ساتھ اُن میں شدّت آتی گئی۔ اِن پابندیوں کا اثر یہ ہوا کہ پہلے تو روسی کرنسی، روبل کی قدر گرتی چلی گئی، جس کے باعث اُس کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہوگئی۔

جواباً روس نے مشرقی یوکرین میں کارروائیاں تیز کردیں، جس میں روسی بولنے والے یوکرینی حصّے نے بھی ساتھ دیا، لیکن مغربی اقتصادی پابندیوں نے ماسکو  کو شدید نقصان پہنچایا۔

روس پر ایک اور مشکل 2016ء میں آئی، جب تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں۔روس کی معیشت کا بڑا انحصار تیل اور گیس کے ذخائر پر ہے۔ اس گراوٹ کے باعث روس کے لیے قومی معیشت کا توازن برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔یوں یوکرین میں روسی پیش رفت تھم  گئی اور اسے اپنی تمام تر توجّہ معیشت کی بحالی پر مرکوز کرنی پڑی۔

واضح رہے، دنیا میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر روس کے پاس ہیں اور وہ یورپ کو بڑے پیمانے پر گیس سپلائی کرتا ہے۔ اگر اس میں یورپ کی طرف سے کسی قسم کا تعطّل آئے، تو روس کی اقتصادیات مسائل سے دوچار ہوجاتی ہے۔

جرمنی کی سابق چانسلر، انجیلا مرکل نے روس اور مغربی طاقتوں کو تصادم کی طرف جانے سے روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور یوں معاملات ایک سطح پر جا کر رُک گئے۔ صدر ٹرمپ کے دَور میں روس اور امریکا کے تعلقات میں مزید ٹھہراؤ آیا۔

Advertisement

الزامات لگائے گئے کہ پوتن اور ٹرمپ کے درمیان تعلقات کی نوعیت ذاتی ہے۔ روس پر یہ الزام بھی لگا کہ اُس نے ڈیموکریٹک امیدوار کے مقابلے میں ری پبلکن صدارتی امیدوار کی سائبر کارروائی کے ذریعے مدد کی۔

مغربی فوجی ماہرین کریمیا کی مثال دیتے ہیں، جسے روس نے فوجی قبضے کے ذریعے اپناحصّہ بنایا۔ نیز، ماہرین اس معاملے کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ پھیلتی ہے، تو ہائبرڈ وارفیئر اور سائبر حملوں کے ساتھ براہِ راست فوجی ٹکراؤ بھی ہوسکتا ہے۔

 عالمی تنازعات کا سامنے آنا اور اُن پر عالمی طاقتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات اقوام عالم کیلئےایک امید ہیں۔ تاہم، سب کی کوشش یہی ہے کہ یہ تنازعات فوجی تصادم میں تبدیل نہ ہونے پائیں ورنہ اس کا خمیازہ دنیا بھگتے گی۔

غالباً ان تنازعات کا فوجی تصادم میں تبدیل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پوسٹ کووِڈ دَور میں معیشت کی بحالی کسی فوجی تصادم کی متحمّل نہیں ہوسکتی۔ جب کورونا نے دوسال تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، تو دشمنی کے باوجو وسیع پیمانے پر عالمی طاقتوں کے مابین تعاون دیکھا گیا۔

اسی طرح امریکا نے افغانستان سے واپسی کے بعد طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے جو مطالبات رکھے، جن میں نمائندہ حکومت کی تشکیل، دہشت گردی کی روک تھام اور خواتین کے تحفّظ کے مطالبات نمایاں ہیں۔ چین ہو یا روس یا مغربی ممالک، سب ہی ان مطالبات پر متفّق نظرآتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے اقتصادی مفادات کو کسی طور نقصان پہنچانے پر آمادہ نہیں۔اب اصل مقابلہ معاشی میدان میں ہے۔

Advertisement

عالمی طاقتوں کی بلاکس کی سیاست بھی اسی اقتصادی مقابلے کا ایک حصّہ ہے۔ اگر کسی مُلک کو یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کہ اُسے بلاکس کی سیاست سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے یا وہ کسی بڑی طاقت کا ہم نوا بن کر دوسری طاقت کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے، تو اِسے اُس کی بین الاقوامی معاملات میں کم فہمی ہی کہا جاسکتا ہے۔ اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ معیشت ہی بلآخر اصل میدان ہے۔

یاد رہے کہ جنگوں کا مزاج موجودہ دور میں مختلف ہے۔ موجودہ جنگیں معاشی، سیاسی، ثقافتی میدانوں میں لڑی جارہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا ماضی یاد رکھتی ہیں۔ اپنی نظریاتی اساس کی حفاظت کرنا وہ بخوبی جانتی ہیں اور اسی میں انکی بقاء کا راز پنہاں ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مدینہ منورہ میں عمرہ و زیارت فورم کی سرگرمیاں
روس نے خلاء میں جوہری ہتھیار رکھنے کی قرارداد ویٹو کردی
بھارت میں انتخابات: مودی سرکار کا ہندوتوا نظریہ زور پکڑنے لگا
امریکہ کا طالبان رجیم کو تسلیم کرنے سے صاف انکار
دُنیا کے امیر ترین افراد کا پسندیدہ ملک کون سا ہے؟ جانیئے
بنگلہ دیش، شدید گرمی کی لہر، ہزاروں اسکول اور مدرسے بند، نماز استسقاء کے اجتماع
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر