اتوار کے روز سے طالبان اور مغربی طاقتوں کے درمیان ناورے کے دارالحکومت اوسلو میں مذاکرات ہو رہے ہیں جن میں افغانستان میں انسانی حقوق اور اِنسانی امداد کے علاوہ افغانستان میں تیزی سے بڑھتی غربت اور افلاس پر بات چیت ہوگی۔
طالبان نے یورپی سرزمین پر مغربی ممالک کے ساتھ اپنے پہلے باضابطہ مذاکراتی سلسلے کو افغانستان میں جنگ کے ماحول کی تبدیلی کے لیے مددگار قرار دیا ہے۔
ہفتے کے روز طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اس سے افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کے ماحول میں تبدیلی میں مدد ملے گی۔
طالبان گزشتہ برس اگست میں اُس وقت کابل پر دوبارہ غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جب مغربی افواج کے افغانستان سے انخلا کا آخری مرحلہ جاری تھا۔ تب سے اب تک دنیا کے کسی ملک نے افغانستان پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
1996ء سے 2001ء کے درمیان افغانستان پر طالبان کی حکومت پر اس دوران انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے الزامات لگتے رہے۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
ناروے کی وزارتِ خارجہ کے مطابق طالبان کے ساتھ اتوار سے منگل تک جاری رہنے والے مذاکرات میں برطانیہ، یورپی یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکا کے حکام بھی شریک ہوں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے آج خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ امارات اسلامی نے مغربی دنیا کے متعدد مطالبات کی تکمیل کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سفارتی ذریعے سے تمام ممالک بشمول یورپی و مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائیں گے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں انسانی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ افغانستان کے لیے عالمی امداد بھی معطل ہے جبکہ امریکا نے افغانستان کے مرکزی بینک کے 9.5 ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر رکھے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے تقریباً 55 فیصد یا 23 ملین شہریوں کو بھوک کی صورتحال کا سامنا ہے جبکہ ان حالات میں افغانستان کے لیے رواں برس نو ارب ڈالر کی امداد کی ضرورت ہوگی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News