سائفر سے لیکر عمران خان پر قاتلانہ حملے تک، بول نے اپنے غیرقانونی دباؤ کا سفر بیان کردیا۔
یہ ایک کھلا راز ہے کہ سینئر اینکر پرسن عمران ریاض خان کو بدترین سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا، ان کے پروگرامز بند کیے گئے اور چینل انتظامیہ کی جانب سے انہیں ٹی وی چینل چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ جس کے بعد وہ ایک اور نجی ٹی وی سے وابستہ ہوئے لیکن یہاں بھی ان کے پروگرام بند کردیے گئے۔ اس مشکل وقت میں بول نیوز نے نہ صرف ان کا ساتھ دیا بلکہ انہیں اپنا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا اور یہ یقین دلایا کہ بول ہر اس صحافی کے ساتھ کھڑا ہے جو حق پر کھڑا ہے۔
بول نیوز نے آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے حوالے سے تمام تر دباؤ کے باوجود نہ صرف خبریں نشر کیں بلکہ اپنے چینل سے وابستہ بے باک صحافیوں کے تجزیے نشر کرکے ان کی بھرپور حمایت کی۔ اس دوران کسی بھی چینل کی کوریج بول نیوز کا مقابلہ نہیں کرسکی اور خاص طور پر رجیم چینج کے بعد ہونے والے واقعات کی کوریج میں بول نیوز سب سے آگے رہا۔
حال ہی میں بہت سے صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث متعدد نامور صحافی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور کئی چینلز اپنے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باعث سچ دکھانے سے قاصر رہے تاہم بول نیوز اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور کوئی بھی خطرہ اسے عوامی بیانیے کی حمایت کرنے کے لیے کمزور نہیں کرسکا، اس کے لیے چاہے اسے جتنا بھی دور تک جانا پڑا۔
ان تمام وجوہات کی وجہ سے بول نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے تارکین وطن میں مقبول ترین چینل بن گیا ہے۔
دیگر چینلز نے سائفر کے معاملے کو پوشیدہ رکھا اور اس حوالے سے خبروں کی اینگلنگ کی تاہم بول نیوز نے سچ بیان کرنے کا اپنا سفر جاری رکھا اور اس حوالے سے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے بھرپور نشریات کا انعقاد کیا۔
بول نیوز کے سینئر اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے پروگرام کو بند کرنے کے لیے چینل انتظامیہ کو زبردست دباؤ کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود چینل نے پروگرام جاری رکھا، حتیٰ کہ سمیع ابراہیم کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی اور سینئر اینکر پرسن کا پروگرام بند کرنے کی خواہش رکھنے والوں نے بہادر صحافی پر حملہ بھی کروایا۔
بول نیوز کے اینکر پرسن جمیل فاروقی کے خلاف بھی جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی گئی اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک بار پھر بول نیوز پر دباؤ ڈالا گیا کہ ان کا پروگرام بند کیا جائے تاہم چینل نے کسی بھی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ساتھی کی حمایت جاری رکھی۔
بول نیوز کی جانب سے ایک پریس ریلیز میں یہ اعلان کیا گیا کہ وہ حقیقی صحافی کے ساتھ کھڑا ہے اور سچ کی صحافت دکھانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آکر اپنی کسی صحافی کو چینل سے نکالے گا۔
ایک اور نامور صحافی صابر شاکر کو حقیقی صحافت کی سزا دی گئی، انہیں بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر ان کا پروگرام بند کردیا گیا جس کے بعد انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا لیکن بول نیوز نے مشکل وقت میں صابر شاکر کا بھرپور ساتھ دیا۔
سینئر صحافی شہید ارشد شریف کا پروگرام بھی دباؤ کے تحت بند کیا گیا اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم بول نیوز نے ارشد شریف کا ساتھ دیتے ہوئے انہیں اپنی فیملی کا حصہ بنایا۔ اور جب ان کے قتل کی خبر ملی تو سب سے پہلے بول نیوز نے اسے نشر کیا اور ناظرین کو بتایا کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ اس دوران دوسرے چینل مرحوم ارشد شریف کے قتل کو ایک حادثہ بتارہے تھے۔ بول نیوز قاتلوں کی گرفتاری تک مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
اس کے علاوہ جب شہباز گل جیسے سیاستدانوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو بول نیوز نے ان کے لیے آواز اٹھائی۔ بول نیوز نے ویڈیو لیک کے واقعے پر سینیٹر اعظم سواتی کے موقف کو بھی اجاگر کیا۔
صدیق جان نے جب بول نیوز کو جوائن کیا تو چینل کو ایک بار پھر دباؤ کا سامنا کرنا پڑا لیکن انتظامیہ نے یہاں بھی کسی قسم کا دباؤ لینے سے انکار کرتے ہوئے صدیق جان کو بول فیملی میں شامل کیا۔
اسی طرح جب شہاب الدین نے بطور اینکر پرسن بول نیوز جوائن کیا تو چینل کو یہاں بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ریلیاں مسلسل دکھانے پر عوام کے پسندیدہ چینل کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے بول نیوز پر ایف بی آر، کسٹمز اور پیمرا کے ذریعے بھرپور دباؤ ڈالا گیا، یہاں تک کہ چینل کا سیکیورٹی لائنسس بھی منسوخ کردیا گیا۔ اس دوران کئی گھنٹوں تک بول نیوز کے دفتر کے باہر مشکوک گاڑیاں گھومتی رہیں لیکن اس کے باوجود بول نیوز نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔
بول نے حقیقی آزادی مارچ اور عمران خان پر قاتلانہ حملے کو بھرپور کوریج دی اور وزیر آباد واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے مسلسل آواز اٹھائی جس پر عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کروائی۔
بول نیوز تمام تر دباؤ کے باوجود سچائی کے ساتھ کھڑا رہا اور ضمنی انتخابات کے دوران اپنے ناظرین کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا۔
بول نیوز کو بوڑھے، جوان، خواتین اور بچوں سمیت پورے قوم کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News