
حکومت کا مِنی بجٹ آرڈیننس کے ذریعے نہ لانے کا فیصلہ
حکومت نے منی بجٹ آرڈیننس کے ذریعے لانے کے بجائے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وفاقی کابینہ نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کی منظوری دیدی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہوگیا جس میں کابینہ نے ٹیکسوں کےنفاذ کےلئے مالیاتی بل کی منظوری دے دی، بل میں 170 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
وفاقی کابینہ اجلاس میں ملک کی معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے کابینہ اراکین کو بریفنگ دی گئی۔ کابینہ نے گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے اور ٹیکس قوانین بلز2023 کی منظوری بھی دیدی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق حکومت نے منی بجٹ کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے فنانس بل کل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور پارلیمنٹ کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ کی آج ہونے والی پریس کانفرنس منسوخ کرد گئی ہے جو آج رات 9 بجکر 25 منٹ پر شیڈول تھی۔
خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحق ڈار کی ملاقات میں آرڈیننس جاری کرنے پر تاحال بریک تھرو نہیں ہوسکا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بجٹ تجاویز آرڈیننس کی صورت میں نافذ کرنے پر اعتراضات اٹھادیے ہیں اور حکومت کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کرمنی بجٹ پر اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فنانس بل کی سینیٹ سے منظوری کی ضرورت نہیں ہو گی، قومی اسمبلی قواعد و ضوابط معطل کرکے ایک ہی روز میں بل پاس کر سکتی ہے، فنانس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر دستخط کرنے کے پابند ہوں گے۔
علاوہ وزیں وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کی جب کہ لگژری آئٹمز پر ٹیکس بڑھانے کی منظوری دیدی۔ کابینہ اجلاس میں بجلی کے بریک ڈاؤن پر پاور ڈویژن کی رپورٹ پیش کی گئی اور اراکین کو بریفنگ دی گئی۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ صرف ایک مرتبہ کیلئے نہیں بلکہ ٹیکس اقدامات ہمیشہ کیلئے متعارف کرائے جائیں۔ اس کے بعد حکومت نے درآمدات پر سیلاب ٹیکس (فلڈ لیوی) عائد کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اس ضمن میں سخت مزاحمت کی ہے۔
ریاست آئی ایم ایف کیساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہے گی
اس سے قبل صدر مملکت سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملاقات کی جس میں وزیر خزانہ نے صدر مملکت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور معاہدے پر بریفنگ دی۔
ڈاکٹر عارف علوی نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر مذاکرات کیلئے حکومتی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ریاست ِپاکستان حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر قائم رہے گی۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور معاہدے کو پورا کرنے کیلیے حکومت ایک آرڈیننس جاری کرکے ٹیکسوں کے ذریعے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔
صدر مملکت نے اضافی ٹیکس نافذ کرنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والے مالیاتی آرڈیننس کو فوری طور پر منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسحاق ڈار کو جواب دیا کہ ’مالیاتی بل کوقومی اسمبلی سے منظور کرائیں‘۔
ترمیمی آرڈیننس کیا ہے؟
واضح رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ریونیو بڑھانے کیلیے ترمیمی آرڈیننس تیار کیا ہے۔ جس کے تحت مجموعی طور پر 200 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔
آرڈیننس کے تحت بینکوں میں ٹرانزیکشن پرنان فائلرز پر 0.60 فیصد ٹیکس عائد کی جائے گی اور بینکوں کے فارن ایکسچینج سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور شوگر ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے، ایک ہزار سگریٹ پر ٹیکس میں 200 روپے سے چار سو روپے تک اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس کو منظوری کیلیے صدر مملکت کو بھیجا تھا۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے قرض کے آٹھویں پروگرام کیلیے پاکستان کو گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ٹیکس ریونیو بڑھانے کی شرط عائد کی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News