
مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق، خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق، خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کا 235واں اجلاس منعقد ہوا جس میں متعدد امور زیرِ غور آئے۔
اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ کچھ عناصر کی طرف سے مسلح اقدامات علمائے کرام اور دینی مدارس کے تمام بورڈز کے متفقہ فتوے/ اعلامیے (پیغامِ پاکستان) کے خلاف ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے امید ظاہر کی ہے کہ مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خود کش حملے شریعت کے منافی ہیں، امید ہے نئے انتخابات کے بعد بننے والی آئندہ پارلیمنٹ پیغامِ پاکستان کے فتوے اور اعلامیے کو پارلیمانی تائید دلائے گی، پارلیمان سے اس کے بارے میں مؤثر قانون سازی کے لیے اقدامات کی امید ہے۔
اجلاس میں کونسل نے احتجاج کے شرعی طریقے کے متعلق صدر مملکت کے ریفرنس کے حوالے سے ایک تفصیلی ضابطہ اخلاق کی منظوری دی۔
اعلامیے کے مطابق اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اپنی حدودِ مملکت میں قرآن وسنت کا نظام نافذ کرے، کاروبارِ مملکت کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلایا جائے، اپنے شہریوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے، شہریوں کے جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے، شہریوں کے مقدسات اور مذہبی شعائر کو تحفظ فراہم کیا جائے، انسان کی بنیادی ضروریات (روٹی،کپڑا اور مکان) کی عزت اور سہولت کے ساتھ سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنی پوری توانائی صرف کر کے عوام کے جائز مطالبات پورے کرے، ریاست عوام کے مسائل حل کرے اور شکایات کا ازالہ کرے، اگر کوئی حکومت اپنی نااہلی، غیر سنجیدگی اور ناانصافی کی وجہ سے عوام کے جائز مطالبات پورا کرنے اور ان کے حقوق دینے میں ناکام ہو جائے تو وہ دنیاوی اور اُخروی دونوں اعتبار سے مجرم تصور ہو گی۔
اعلامیے کے مطابق ایسی حکومت کو رعایا کے سامنے احتساب اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب کے لیے پیش ہونا ہو گا، اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو شرعی مفاسد اور اور خرابیوں سے پاک ہو، جو احتجاج بذات خود کسی دوسرے غیر شرعی کام اور حرام امور پر مشتمل ہو وہ جائز نہیں۔
جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دوران احتجاج لوگوں کی جانوں کوضائع کرنا، لوگوں کو تکلیف واذیت پہنچانا، نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے، زبردستی لوگوں کو اپنے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور کرنا گالم گلوچ کرنا مرد وزن کا بے محابا اختلاط بھی جائز نہیں ہے، الزام اور بہتان تراشی جھوٹ غلط خبریں اور افواہیں پھیلانا یہ سب امور ناجائز ہیں، احتجاج کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو ضائع کرنا یا ان کو نقصان پہنچانا غیر شرعی ہے۔
کونسل نے فیض آباد دھرنا کمیشن کے سوالات کے جواب میں قرار دیا کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینا نہایت حساس معاملہ ہے، اس پر سخت ترین نتائج مرتب ہوتے ہیں اس لیے اس میں جلد بازی سے کام لینا ہرگز درست نہیں، اسی طرح کسی شخص کے قول اور فعل کی وجہ سے اسے کافر قرار دینا نہایت ہی احتیاط کا متقاضی ہے، اس کا اختیار ہر کس و ناکس کو دینا شرعی تعلیمات کی خلاف ورزی اور حکمت ومصلحت کے اصولوں کے منافی ہے۔
اجلاس میں قرار دیا گیا کہ آئین و قانون كے مطابق قائم ریاست جہاں باقاعدہ قانون ساز ادارے موجود ہوں اور ایک باقاعدہ عدالتى نظام كام كر رہا ہو میں فیصلہ كرنا عدالت كا كام ہے، عدالت كسى متعىن فرد پر اس كے اقوال و افعال كى بنىاد پر مكمل تفتىش و تحقىق اور شرعى ثبوت كے بعد كوئى حكم لگا كر سزا جارى كرے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News