سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے نواوردس مئی کی ایف آئی آرز اوردیگر تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلنزکے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹ کے زیرحراست افراد کی ایف آئی آرکی نقول نہیں دی گئی، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دوحصوں پرمشتمل ہے، ایک حصہ میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قراردیا گیا، دوسرے حصہ میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔ جسٹس محمدعلی مظہرنے پوچھا کہ کیا پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل8 سے متصادم قرار دیا؟ آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل8سے متصادم ہونے کا کیا جواز فیصلہ میں دیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے بھی پوچھا کہ جوشخص آرمڈ فورسزمیں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسےآسکتا ہے؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ اگرقانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پرملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پرمحکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، اگرکوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے نہیں اس پر آرمی فورسزکے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا آرمی ایکٹ کے تحت کیس چلےتوملزم کے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا آرمی ایکٹ کے زمرے میں آنے والا کسی اوردنیا میں چلا جاتا ہے؟
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ مخصوص حالات میں سویلین پربھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اس نقطہ پرعدالتی فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ ایف بی علی اورشیخ ریاض علی کیس میں یہی قراردیا گیا، چارججزنے فیصلہ میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں اس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تواگرکوئی اکسانے کا سوچےاس پربھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشنز 1 اوروغیرمؤثرنہیں کر دیے۔
وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئرٹرائل کے آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ ملٹری کورٹ فیصلہ کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں کو یہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلہ میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں؟ اس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچ انٹراکورٹ اپیلوں میں بھی آئینی نقطہ کا جائزہ لےسکتا ہے۔
جسٹس محمدعلی مظہرنے کہا کہ برادرجج کی ابزرویشن سے میرا اختلاف نہیں، فیصلہ میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدرپاکستان کا ہے، اگرصدر ہاؤس پرحملہ ہوتا ملزم کو ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوگا، اگرآرمی املاک پرحملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اورتمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرایک فوجی اپنے افسرکا قتل کردے تو کیس کہاں چلے گا؟ اس پرخواجہ حارث نے جواب دیا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس پرآرمی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا اس کو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟ آئین کے آرٹیکل آٹھ میں آرمی قوانین کا ذکرانکے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، چھائونی کا تصورسب سے پہلے حضرت عمرنے دیا تھا، حضرت عمرنے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اوراللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی بارڈرزسنبھال کرملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں اگرعام لوگوں کو شامل کیا تو خدانہ خواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے، فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے، فوجی تنصیبات پرحملہ بھی توانسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہی جرم ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ذاتی عنادپرفوجی کا قتل الگ اوربلوچستان طرزپرفوج پرحملہ الگ چیزیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے نواوردس مئی کی ایف آئی آرز اوردیگر تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News