سردیوں اور رومانس کا گہرا تعلق ہے ، تحقیق میں بھی ثابت ہو گیا ۔ مشرقی جوڑے بھی اکثر اپنی رومانوی تحریروں میں اس کا اظہار لفظوں میں اس طرح کرتے ہیں کہ ’’ سنا ہے دسمبر آ گیا‘‘۔
مشرق ہو یا مغرب ! رومانوی موسم سردیوں کا ہی تصور کیا جاتا ہے۔ شعرا اپنی شاعری میں جبکہ لکھاری اپنی تحریروں میں تو اس کا اظہارکرتے ہی تھے اب سائنس بھی اس نظریے کو مان چکی ہے۔
ہر سال خزاں کے آخری مہینوں کو کفنگ سیزن کہا جاتا ہے، جو ڈیٹنگ کی دنیا میں نمودار ہوجاتا ہے۔
اس دوران اکیلے لوگ سرد، تاریک اور طویل موسم سرما کے لیے رومانوی تعلقات تلاش کرتے ہیں ۔ مگر کیا اس کے پیچھے کوئی سائنس بھی ہے؟
اس موضوع اور اس موسم کے دوران لوگوں کے جذبات کے حوالے ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے بھی روشنی ڈالی ہے۔
رومانوی احساسات اور موسم کے حوالے سے سائنس کیا کہتی ہے؟
رومانوی احساسات اور موسم سے حوالے سے سائنس بھی اسی قسم کا نظریہ پیش کرتی ہے ۔
سینٹ جوز سٹیٹ یونیورسٹی کی ماہر نفسیات، کرسٹین ما کیلمز کے مطابق کچھ حیوانات میں تولید کے رویے موسمی ہوتے ہیں مگر انسان موسمی طور پر جنسی رویہ نہیں رکھتے۔
تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ آن لائن ڈیٹنگ، پورن اور دیگر جنسی سرگرمیوں میں اضافہ صرف سردیوں میں نہیں بلکہ گرمیوں میں بھی ہوتا ہے۔
کچھ مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ کرسمس اور نئے سال کے موقع پر انسانی جنسی سرگرمی اور غیر محفوظ تعلقات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

سردیوں میں رومانوی رجحان اور احساسات
محققین کے مطابق سردیوں میں لوگ جسمانی اور جذباتی قربت کے ذریعے خود کو بہتر محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قربت اور رومانس خوشی اور اطمینان میں اضافہ کرتا ہے۔ جسٹن گارسیا کہتے ہیں کہ کفنگ سیزن ہمیں یہ سکھا سکتا ہے کہ ہم تعلقات کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔
خاندان اور دوست ہمارے رومانوی انتخاب پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
اگرچہ انسان موسمی طور پر تولید نہیں کرتا مگر ثقافتی اور سماجی عوامل سردیوں میں رومانوی تعلقات کی جانب مائل کرتے ہیں۔
جنریشن زی اور ملینیئلز اپنی رومانوی ترجیحات پر نظرثانی کر رہے ہیں اور ڈیٹنگ کے طریقے بدل رہے ہیں۔




















