Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

1971ء کے بعد حب الوطنی کی تجدید تو ہوئی تاہم یہ مُنقسم رہی، جاوید جبار

Now Reading:

1971ء کے بعد حب الوطنی کی تجدید تو ہوئی تاہم یہ مُنقسم رہی، جاوید جبار

پاکستان کے سابق سینیٹر، وفاقی وزیر، معروف مصنف اور عوامی دانشور جاوید جبار کی بے لاگ گفتگو، (خصوصی انٹرویو)

آپ حب الوطنی کے تصور کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟

جاوید جبار: پوری انسانی تاریخ میں، سیاسی طور پر کسی علاقے میں افراد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے، اس ہستی کے لیے وابستگی، وفاداری اور محبت کا اظہار کریں جس میں وہ رہتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر قابل فہم ہے۔ لیکن جب حب الوطنی شدت پسند اور پُرتشدد بن جائے تو یہ ممکنہ طور پر خرابیوں کا باعث اور خطرناک بھی بن جاتی ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سے پاکستانیوں کا حب الوطنی پر پختہ اور غیر متزلزل یقین ہے، خاص طور پر مسلح افواج، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے لیے جنہوں نے ملک کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ یہ اگر بہترین نہیں تو حب الوطنی کی بہترین صورتوں میں سے ایک ہے۔

بطور قوم حب الوطنی کے بارے میں ہمارے تصور نے کئی دہائیوں میں کس طرح سے ارتقائی منازل طے کی ہیں؟

Advertisement

ابتدائی برسوں میں، ہماری حب الوطنی شک و شبہے سے بالاتر تھی، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک نئے وطن کے تصور پر اندھا اعتماد تھا۔ اس کو خاص طور پر ان بے پناہ نقصانات سے تقویت ملی جن کے ساتھ نئی ریاست نے جنم لیا، ان میں سے اکثر نقصانات انگریزوں اور کانگریس پارٹی کی قیادت والی بھارتی حکومت نے پہنچائے۔ اس ناانصافی نے حب الوطنی کے جذبات کو مضبوط کیا کیونکہ دشمن قوتوں کے مقابل جذبہء یکجہتی نے مقصد پر قائم رہنے کے لیے سخت ردعمل کو اُبھارا، چاہے کتنی بھی مشکلات ہوں۔

وقت کے ساتھ حب الوطنی پر دو بازو والی ریاست کی ممکنہ بقا پر شکوک و شبہات سے حملے کیے جانے لگے۔ 48-1947ء میں واحد اور مشترکہ جذبہء حب الوطنی سے ہم حب الوطنی کی مسلسل کی جانے والی الگ الگ تشریحات میں مصروف ہو گئے۔ 1971ء کے بعد حب الوطنی کی تجدید تو ہوئی لیکن یہ آبادی کے ایک حصے اور درپیش مسئلے کی مدت پر منحصر رہتے ہوئے، مُنقسم رہی۔ مثال کے طور پر قوم پرست جماعتیں خود مختاری، صحیح یا غلط طور پر علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہیں جو حب الوطنی کے نظریات کے منافی ہے، لیکن 14 اگست یا 23 مارچ کو، یا جب پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت یا کسی اور ملک کے خلاف کھیل رہی ہوتی ہے تو نسلی یا سیاسی نقطہ نظر سے ہٹ کر تقریباً ہر کوئی پاکستان کے لیے خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ حب الوطنی کچھ معاملات میں مختلف شکل اختیار کرلیتی ہے کچھ معاملات میں یہ مستقل اور مستحکم رہتی ہے۔

کیا آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوجوان نسل حب الوطنی کا جذبہ کھو چکی ہے؟ اگر ہاں تو اسے کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے؟

آپ کے سوال کے مضمرات کے برعکس، نوجوانوں کی اکثریت تاریخ کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھتی ہے اور روایت، ملک، سماجی انصاف اور اصلاح کے لیے جذباتی طور پر پُرعزم ہے۔ مختلف نوجوان قیادتوں کی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں تنقیدی شک و شبہے کے ساتھ مثبت توانائی بھی شامل ہوتی ہے۔ اپنی حب الوطنی کی تشہیر کیے بغیر، حتیٰ کہ متعدد معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود نوجوان اپنی قومی شناخت سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔

Advertisement

کس بات نے آپ کو یہ کتاب “پاکستان – مُنفرد ماخذ، مُنفرد تقدیر؟” لکھنے کے لیے متاثر کیا؟

2010ء میں جب میں پاکستان کی غیر معمولی ابتداء اور ارتقاء کے موضوع پر ایک اسکول میں لیکچر دینے کے بعد فارغ ہوا تو ایک 14 سالہ نوعمر لڑکا کھڑا ہو کر پوچھنے لگا کہ، جناب، کیا کوئی ایسی کتاب ہے جس میں وہ معلومات پڑھ سکوں جو آپ نے بتائیں؟ کیوں کہ آپ نے جو کچھ بتایا اُس میں سے زیادہ تر معلومات ہماری کسی نصابی کتاب میں نہیں ہیں۔ اس بات نے مجھے چونکا دیا۔ اس کی بات نے میری چھوٹی سی انا کو بھی خوشی دی کہ میں نے اس کے سامنے کچھ نیا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ میں شرمندہ بھی تھا کہ اس وقت تک میں نے جو نو کتابیں لکھی تھیں، ان میں سے کسی ایک میں بھی ہمارے ملک کی ابتدا کی منفرد جہتوں پر توجہ نہیں دی تھی۔

کتاب کی تشکیل کافی مختلف ہے۔ دیباچے کے مطابق، پاکستان – مُنفرد ماخذ، مُنفرد تقدیر؟” پاکستان کی ابتدا کی نہ تو زمانوی اور نہ ہی کوئی جامع تاریخی کتاب ہے۔ یہ بات کس طرح سے کتاب کی کمزوری کی بجائے طاقت ثابت ہوئی ہے؟

خود کو روایتی، کسی حد تک تنقیدی نقطہ نظر اور روایتی تجویز کردہ نصابی کتب کی عکاس زمانوی ترتیب سے آزاد کرکے، جو تاہم ناگزیر ہے، میں قومی ریاستوں کی تشکیل اور ارتقاء کے حوالے سے ایک بڑا اور وسیع منظر نامہ دیکھنے کے قابل ہو گیا کہ اُس وقت کیا ہو رہا تھا اور دنیا کے دیگر حصوں میں کیا ہو چکا ہے۔ صرف مسلم ہندو بنیاد پرستی کی نسبتاً تنگ حدود میں رہنے کی بجائے، میں اِس تناظر میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کے اُبھرنے کو جگہ دینے کے قابل ہوا۔

Advertisement

پاکستان – مُنفرد ماخذ، مُنفرد تقدیر؟” کتاب میں قارئین کے لیے کلیدی موضوعات پر اپنی بصیرت اور مشاہدات کے اشتراک کی ترغیب دینے کے لیے کورے صفحات بھی شامل ہیں۔ قارئین کی جانب سے ان صفحات میں لکھے گئے کچھ انتہائی دلچسپ خیالات کیا ہیں؟

شاید اس لیے کہ کتابوں میں قارئین کے ذاتی خیالات کے لیے خالی صفحات پیش کرنا غیر معمولی بات ہے، قارئین ان صفحات کو پبلشر یا مصنف کو بھیجنے کی زحمت نہیں اٹھائیں گے۔ اس لیے مجھے اس شکل میں محدود رائے ملی ہے۔ تاہم، لائیو سیشنز کے دوران مختلف قسم کے تبصرے کیے گئے ہیں جہاں موجود لوگوں میں سے کچھ نے کتاب پڑھنے کے لیے وقت نکالا ہے۔

فکر انگیز تبصروں میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ کیا قومی ریاست گہری تقسیم، برادرانہ تعاون کے لیے مُضر، پاپولزم (عوام اور اشرافیہ میں تفریق پیدا کرنے والی) اور فاشزم (آمریت) کا شکار ثابت ہوئی ہے۔ یہ جزوی طور پر سچ ہے۔ ایک اور نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ کیا پاکستان نے فلاحی ریاست کے مقابلے میں سکیورٹی ریاست کی سوچ کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔ ہماری انفرادیت کے اس کے بنیادی نظریے پر کبھی بھی کوئی ٹھوس منفی رائے نہیں آئی۔

پاکستان – مُنفرد ماخذ، مُنفرد تقدیر؟” میں آپ کا مضمون “پاکستان کے 100 سال: 2047ء کا منظرنامہ” بھی شامل ہے۔ مضمون 1997ء میں لکھا گیا تھا۔ 2022ء میں اس موضوع پر آپ کا نقطہ نظر کتنا مختلف ہوگا؟

25 برسوں کے دوران، جب سے میں نے یہ مضمون لکھا ہے، بہت کچھ بدلا اور بہت کچھ ویسا ہی رہا۔ لیکن گزشتہ چوتھائی صدی میں بہت کچھ بدل گیا، جس میں سے کچھ بہتری کے لیے ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں مقننہ کے تمام درجات میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوا، یہ ایک اہم پیش رفت ہے جسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا منظرنامہ بہتر اور بدتر کے لیے تبدیل ہو چکا ہے اور اس میں بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

Advertisement

تاہم بڑھتی آبادی کی ضروریات اور مسائل کے حل کی خاطر باصلاحیت حکمرانی کے لیے انقلابی جوش اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اس لیے مضمون میں ایک ایسی سیاسی قیادت کو پروان چڑھانے کی تجویز دی گئی ہے جو 25 سال تک مادی اثاثوں سے تائب ہو جائے، اور پھر ریٹائرمنٹ پر اسے معاوضہ دیا جائے، غور طلب ہے۔

آنے والے برسوں میں ہم کس طرح سے پاکستان کے مثبت تصور کو فروغ دے سکتے ہیں؟

سب سے پہلے تو خود ہمارے خیالات، رویوں اور طرزِ عمل کو بہتر اور سُدھارنے کی ہماری کاوشوں کو دگنا کرکے۔ دوسرا، نئے علم کے حصول کو فروغ دینے کے مقصد سے ہمارے قومی تشخص کے عالمی اور خوش گوار پہلوؤں کو استوار کرنا۔ تیسرا، باہمی احترام پر مبنی سول ملٹری توازن کو یقینی بنا کر۔ چوتھا، ایک متوازن نصاب کے ساتھ عالمی معیار کی تعلیم کو سختی سے نافذ کرنے اور یقینی بناکر ، اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز، حتیٰ کہ وڈیو گیمز اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے۔ پانچویں، ہماری عظیم قوم کے متعدد روشن پہلوؤں کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں نقد سرمایہ کاری کرکے پاکستان کے مثبت تشخص کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
3 سالہ میکرو اکنامک اور فسکل فریم ورک جاری،معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصدتک جانے کی توقع
ترجمان طالبان نے استنبول مذاکرات سے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، پاکستان
سابق وزیراعلیٰ سندھ اور سینئر پی پی رہنما آفتاب شعبان میرانی انتقال کرگئے
خامنہ ای نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق امریکا کو واضح اور سخت پیغام دے دیا
بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول ، مولانا فضل الرحمان پٹڑی سے اتر گئے
مشرقی محاذ پر شکست کے بعد مودی کی بولتی بند ہو گئی ، خواجہ آصف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر