Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

Now Reading:

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

2000ءکی دہائی میں، پاکستانی انگریزی افسانوں کی متاثر کن صنف ابھر کر سامنے آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مصنفین کی اکثریت بیرون ممالک جیسے بھارت، امریکہ اوربرطانیہ میں شائع ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا اشاعتی ڈھانچہ عالمی معیار پرپورا اترنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

ماضی میں، پاکستان میں ناشرین سے رابطہ کرنے والے افسانہ نگاروں کو اکثرسرد، غیرپیشہ ورانہ رویہ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔عمومی طورپرناشرین کی اکثریت انگریزی افسانے شائع کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے کیونکہ ملک میں اس کے قارئین کی تعداد محدود ہے۔ دیگرناشرین مصنفین پرزوردیں گے کہ وہ تقسیم کاروں سے اپنے کام کے لیے مصدقہ قبل از اشاعت آرڈرز حاصل کریں۔ بتدریج پتہ چلا کہ زیادہ ترمصنفین جن کو اس طرح کی درخواستوں کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا تھا،دراصل یہ ان کے کام کو مسترد کرنے کا محض ایک بالواسطہ طریقہ تھا۔

یہ کہنا غلط ہوگا کہ ملک میں کام کرنے والے اشاعتی اداروں نے پاکستان میں ترقی پزیر ادبی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی) پاکستان، جو ملک کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہے، نے کراچی اوراسلام آباد کے ادبی میلوں کی میزبانی کی ہے، جنہوں نے ادبی منظر نامے میں قابل ذکرحصہ ڈالا ہے۔ چھوٹے پیمانے کے ناشرین کے ایک سلسلے نے ملک میں نئے افسانوں کی اشاعت کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کیا ہے، اگرچہ کہ ان میں سے اکثرکے پاس ادارتی اورمارکیٹنگ کی طاقت فراہم کرنے کے لیے مطلوبہ ڈھانچے کی کمی ہے۔

اس کے باوجود، پاکستانی مصنفین میں بھارتی، برطانوی اورامریکی ناشرین مقبول انتخاب بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ بین الاقوامی قارئین کے لیے ایک در وا کرتے ہیں۔ چند سال قبل تک ان کتابوں کی کاپیاں بھارت کے بک اسٹالزسے سستے داموں درآمد کر کے پاکستان میں فروخت کی جاتی تھیں۔ مقامی مصنفین شاذ ہی اپنی کتابوں کے پاکستانی ایڈیشن جاری کرنے کے بارے میں سوچتے تھے کیونکہ بھارتی ایڈیشن بازاروں میں آسانی سے دستیاب تھے۔

اگست 2019ء میں حالات اس وقت مزید دگرگوں ہو گئے جب بھارت میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے غیر قانونی طور پربھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کا الحاق کرلیا۔ اس وقت کی عمران خان کی زیرقیادت پاکستانی حکومت نے مقبوضہ وادی کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے بھارتی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس سیاسی بحران کے نتیجے میں بھارت سے درآمد شدہ کتابوں کو اصل خسارہ ہوا۔

Advertisement

یہ کہنا غلط ہو گا کہ ان پیش رفتوں نے ہی پاکستان کے اشاعتی شعبے میں بحالی کو تقویت دی۔ تبدیلی کے بیج چند سال پہلے ہی بوئے جاچکے تھے اورنئے پریس نے پہلے ہی مقامی مارکیٹ میں اپنے لیے جگہ بنا لی تھی۔ مثال کے طور پر،ملک میں کتابوں کے ایک بڑے تقسیم کار لبرٹی بکس نے پہلے ہی لبرٹی اشاعتی ادارہ قائم کررکھا تھا۔ اکتوبر 2018ء کے اوائل میں، لبرٹی اشاعتی ادارے نے بھارتی ناشرین کے ساتھ مل کرچند کتابیں شائع کیں اورلبرٹی بُکس اپنے اشاعتی شراکت دارکو مضبوط کرنے کی خواہشمند تھی۔

بھارت سے درآمدات پرپابندی نے پاکستان کی اشاعتی صنعت کو بالواسطہ طور پرتحریک فراہم کی۔ مقامی مصنفین یا تو آخری سہارے کے طورپرملکی ناشرین کی طرف متوجہ ہوئے یا اس وجہ سے کہ بالآخرانہوں نے اپنے کام کے پاکستانی ایڈیشن شائع کرنے کی اہمیت کو تسلیم کر لیا جب کہ بھارت ایک ناقابل اعتماد انتخاب بن گیا۔ اشاعتی ادارے اس موقع پرسامنے آئے اوراس خلا کو پر کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ ان میں سے بہت سے ناشرین نے پاکستانی مصنفین کی کتابوں کو دوبارہ چھاپنے کے حقوق حاصل کر لیے جو پابندی سے قبل بھارتی ناشرین کے پاس تھے۔ ان میں سے چند ایک نے اصل افسانے بھی شائع کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئے کھلاڑی صنعت میں داخل ہوئے اور پاکستان میں اشاعت کے شعبے نے ایک نئی رفتار پکڑ لی۔

تاہم، ہم یہ فراموش نہیں کرسکتے کہ پاکستان کی اشاعتی صنعت ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ مقامی ناشرین کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ ان میں سے اکثریت ابھی تک کوالٹی کنٹرول کی اہمیت کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پائی ہے، ایک اہم جزو جوعالمی رجحانات کا مقابلہ کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ بہت سی کتابیں جو مقامی طورپرشائع ہو چکی ہیں ان کو درست ادارتی رائے کی اشد ضرورت ہے۔ بیک وقت ان عنوانات کے لیے وسیع ترقارئین کو تلاش کرنے کے لیے ٹھوس مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کو تیارکرنے کی ضرورت ہے۔

مصنفین

ان خیالات کی بازگشت مختلف پاکستانی مصنفین میں سنی گئی ہے جو بھارت اور ملکی بازاردونوں میں شائع ہو چکے ہیں۔

میلوڈی آف اے ٹیئر کتاب کے ایوارڈ یافتہ مصنف ہارون خالد اختر نے بولڈ کو بتایا کہ بھارت میں ان کی کتابوں کی اشاعت سے پاکستان کے انگریزی مصنفین کو 2019ء تک کچھ اہم فوائد حاصل ہوئے۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں پاکستان میں انگلش فکشن کے بہت کم ناشرین تھے۔ جب میں نے میلوڈی آف اے ٹیئر کتاب کے لیے پاکستان میں کسی ناشر کی تلاش شروع کی تو مجھےلاہورمیں ایک کےعلاوہ کوئی نہیں ملا۔ تاہم، انہوں نے پیش لفظ کے علاوہ ادیبوں کو کوئی ادارتی خدمات فراہم نہیں کیں۔

خالد اخترکے پہلے ناول کو درآمدی پابندی سے محض چند ماہ قبل بھارت میں ایک ناشرملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مانگ میں اضافے کی وجہ سے ناول کو پاکستان میں دوبارہ چھاپنا پڑا لیکن درآمد پر پابندی کی وجہ سے اس کا ذخیرہ محدود تھا ۔

2021ء میں خلد اختر نے اپنے دوسرے ناول ’’دی لائرز ٹرتھ‘‘ کی اشاعت کے لیے ایک مقامی ناشرکو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لبرٹی اشاعتی ادارے نے، جس نے ان کے پہلے ناول کا پاکستانی ایڈیشن چھاپا تھا، آخر کار مصنف کا دوسرا افسانہ شائع کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک کارآمد تجربہ ثابت ہوا۔

خالد اخترکا خیال ہے کہ انگریزی میں پاکستانی افسانوں کی اشاعت کو’’خطرناک تجویز‘‘ سمجھا جاتا ہے۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی مصنف کے لیے انتخاب محدود ہیں۔ اس کے باوجود، خالداختر کا دعویٰ ہے کہ مقامی ناشرین اس راہ پرہیں جس پربھارتی ناشرین کئی سال پہلے سے تھے۔

خالد اختر کا کہنا ہے کہ 2020ء کے بعد سے بہترترتیب وتدوین کی سہولتیں اورمصنف سے ربط و ہم آہنگی کی خدمات رکھی جا رہی ہیں۔ہمارے مقامی ناشرین کے پاس بین الاقوامی سطح پرکتاب کی تشہیرکے سلسلے میں اورانسٹاگرام پر اثر انداز ہونے والوں سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ لیکن ہماری صنعت نے آہستہ آہستہ اورآخرکار درست سمت میں سفرشروع کر دیا ہے۔

ایک اورپاکستانی ناول نگاراویس خان نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہارکیا۔ ان کا پہلا ناول ’ان دی کمپنی آف اسٹرینجر‘‘مقامی طور پر شائع ہوا کیونکہ ان کا بھارتی ناشراس کتاب کی کاپیاں پاکستان بھیجنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔اویس خان کہتے ہیں کہ جہاں مقامی پریس کے ذریعے شائع ہونے سے ناول قابل رسائی بن گیا ہے، وہیں بہت ساری مشکلات بھی پیش آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تقسیم کاری میں پاکستانی ناشرین زیادہ اچھے نہیں ہیں، جس سے فروخت متاثر ہوتی ہے۔

اویس خان کا خیال ہے کہ اس میں غلطی کتابوں کے دکانداروں کی بھی ہے۔ وہ مقامی طورپرشائع شدہ کتابوں کو ذخیرہ کرنے کے خواہشمند نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے کتابوں کے دکاندار کے اپنے چھاپے خانے بھی ہیں اوروہ اپنی اپنی دکانوں میں اپنے چھاپے خانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔پاکستانی اشاعتی صنعت کیلئے برطانوی اورامریکی اشاعتی صنعتوں کی پیروی کرنا بہتررہے گا۔

Advertisement

اویس خان کے مطابق،مصنفین کو ادا کی جانے والی ’’رائلٹی‘‘ کے بارے میں زیادہ شفافیت کی بھی ضرورت ہے۔

تاہم، مصنف کا خیال ہے کہ جب بھارت کے ساتھ تجارتی پابندی نے اتنی بے رحمی سے کتابوں کی صنعت کو ٹھپ کر کے رکھ دیا تھا،مقامی ناشرین کو اس موقع پراٹھ کھڑے ہونے کے لیے سراہا جانا چاہیے۔

ناشرین

درآمدی پابندی لاگو ہونے کے بعد، پاکستان میں ناشرین نے خود کو پہلے سے کہیں زیادہ مصروف پایا، لیکن انہیں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

 اشاعتی ماہر سارہ دانیال نے بولڈ کو بتایا کہ ملک کا اشاعتی شعبہ پہلے ہی اپنے ابتدائی دورمیں تھا اورتیاری کے بغیر،غیرمنظم اورمنافع کے کم حصے سے متاثرتھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان مسائل کے باوجود، صنعت کو کاروبارمیں برقرار رہنے کے لیے نئے طریقےتلاش کرنے تھے۔

سارہ دانیال کا دعویٰ ہے کہ درآمدی پابندی کی وجہ سے ایک منفرد اندازمیں ادب کا اشتراک ہوا ہے کیونکہ پاکستانی ناشرین نے اب بھارت سے دوبارہ اشاعتی حقوق حاصل کر لیے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کتابیں پاکستان میں قارئین کے لیے دستیاب ہوں۔

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ناشرین نے حالیہ برسوں میں ایسے مصنفین کو مواقع فراہم کیے ہیں جنہیں ان کے بھارتی ہم منصبوں نے نہیں لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ یقیناً، معاشیات زیادہ سے زیادہ کاروباروں کا حکم دیتی ہے اوراشاعت کا معاملہ بھی اس سےکچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ یہ سب اعدادوشمار کا چکرہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہمیں بہتر ایڈیٹرز، ادبی ایجنٹوں کا ماحولیاتی نظام، تشہیر کے ذرائع،تقسیم کاروں کے جال اور بیک وقت بڑے پیمانے پرچھپائی کی ضرورت ہے تاکہ لاگت پر آنے والی بچت کا فائدہ اٹھایا جا سکے اوربڑے پیمانے پرمعیشتوں کو تشکیل دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اشاعت کمائی کرنے والا کاروبارنہیں ہے۔

سارہ دانیال کا خیال ہے کہ اگر پابندی برقراررہی اورکتابیں مقامی طورپرشائع ہوتی رہیں توناشرین کو مزید کتابیں فروخت کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ کتابوں کی زیادہ فروخت کرنے کے لیے، ہمیں مطالعے کا رواج بنانا چاہیے۔ افسوسناک طور پر،پاکستانی قوم میں مطاعے کی عادت دم توڑ رہی ہے۔”

بقول پیرزادہ عاشق کیرانوی

سُرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

Advertisement

لبرٹی بُکس کے ڈائریکٹر سمیرسلیم نے بولڈ کوبتایا کہ مقامی پریس کے اپنی کتابیں شائع کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد مصنفین کو کافی فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اشاعت کی بات آتی ہے تو بھارتی ناشرین کے پاس عام طورپرایک لمبی فہرست ہوتی ہے اورپاکستانی مصنفین کواکثراپنی کتاب کو ترجیح دینے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم مقامی ناشرین پاکستانی مصنفین کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس کے باوجود، سمیرسلیم کا خیال ہے کہ مقامی بازارمیں اشاعت ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ مزید یہ کہ فوری طورپرڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کاغذ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، جس سے کتابوں میں استعمال ہونے والے کاغذ کا معیار متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرحلے پر، مقامی ناشرین کو حکومت کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ملا۔

ریوری پبلشرز کی سربراہ سفینہ دانش الٰہی کا خیال ہے کہ ان کی اشاعتی جسارت محض ’’سمندرمیں ایک قطرہ‘‘ کے برابرہے اوروہ امید کرتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لہر جاری رکھیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ریوری نے اب تک 10 کتابیں شائع کی ہیں۔ ان سب کو پذیرائی ملی ہے جب کہ تین مزید کی رواں برس اشاعت کے لیے ان پر کام جاری ہے۔”

تاہم،سفینہ دانش الٰہی پاکستان میں اشاعت کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں، انہوں نے چند ’’رکاوٹوں‘‘ کی نشاندہی کی، جنہوں نے مقامی پریس کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ زیادہ کتابیں نہیں خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت سارے قارئین پاکستانی تحریروں پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ کبھی بھی بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اتریں گی کیونکہ انگریزی ہماری دوسری زبان ہے۔ تاہم، میں اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ ہمارے پاس ماضی اور حال  میں بے پناہ صلاحیت ہے اور ہم اس قابل ہیں کہ وہ بہترین ادب تخلیق کر سکیں۔.”

Advertisement

وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارے موجودہ اشاعتی ڈھانچے کے اندر پائیدارحل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ سفینہ دانش الٰہی چھوٹے امریکی پریسوں کے ساتھ ان کے عنوانات کے دوبارہ اشاعتی حقوق حاصل کرکے تعاون کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔

اندرونی مشکلات

پاکستان کا اشعتی شعبہ بھی عالمی وبائی امراض اور تباہ کن معاشی بحرانوں سے متاثر ہوا ہے جس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان پریس کی کی مارکیٹنگ ڈائریکٹرراحیلہ بقائی کہتی ہیں کہ کووڈ19 نے اشاعت کے شعبے میں کاروبارکو ٹھپ کر دیا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی نے بھی چیزوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ کاغذ کی قیمتوں میں اضافے کے حساب سے اب کتابوں کی قیمتوں کا تعین کرنا ہوگا۔

 راحیلہ بقائی نے زور دے کر کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب لوگ بنیادی سہولیات کی خریداری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لوگوں سے کتابیں خریدنے کی توقع کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اشاعتی صنعت نے شاید ضروری محرک حاصل کیا ہو،لیکن بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی بحالی اورانہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کے لیے ٹھوس کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
لبنان کو اپنے خلاف نیا محاذ نہیں بننے دینگے ، نیتن یاہو کی نئی دھمکی
ریڈ لائن منصوبہ عوام کیلیے وبال جان، پیپلزپارٹی نے کراچی کو تجربہ گاہ بنا دیا، حافظ نعیم الرحمان
صدر زرداری دوحہ میں پاکستان کے سماجی و معاشی عزم کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے
میٹھا خواب کڑوی حقیقت، چینی کی قیمت بے قابو، نرخ 220 روپے فی کلو ہو گئے
ماؤس کی طرح کام کرنے والا انوکھا چھلا تیار
شہر قائد دوبارہ بھتہ خوروں کے نرغے میں، لیاری گینگ کے تین کارندے گرفتار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر