Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

زبان کو کیسے بچایا جائے ؟

Now Reading:

زبان کو کیسے بچایا جائے ؟

ہمارے لیے جس طرح ہوا کے بغیر سانس لینا ممکن نہیں ،بالکل اسی طرح زبان بھی ہمارے وجود کا ایک ناگزیر عنصر ہے۔ زبان بات چیت کے محض ایک ذریعے سے زیادہ ، ادبی سرگرمیوں کے لیے سنگ بنیاد کے ساتھ ہماری تخلیقی آزادی کے لیے ایک راستے کا کام بھی کرتی ہے۔ ملک میں جہاں ایک طرف ہماری زبان کے معدوم ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، یہاں بولی جانے والی زبانیں مٹ جانے یا نظر انداز ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں ، ایسے وقت میں ہمیں اپنی لسانی روایات اور ورثے کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے ،اسے زندہ رکھنے کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی ہماری لسانی روایات کے مستقبل کو درپیش خدشات اور چیلنجز کے حوالے سے گفتگو کے سلسلے کو بھی ختم نہیں کیا جاسکتا جو معاشرے کو بڑی حد تک پریشان کر رہے ہیں ۔

Advertisement

ان خدشات کی روشنی میں یکم دسمبر سے 4 دسمبر 2022ء تک پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہونے والی 15ویں عالمی اردو کانفرنس درست سمت میں اٹھایا جانے والا ایک قدم تھا۔ ہمارے لیے اکثر اپنی غیر ضروری مصروفیات کو ایک طرف رکھ کر ، بھرپور لسانی اور ادبی روایات کو فروغ دینے والے سالانہ ایونٹ کا اہتمام کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔حالیہ برسوں میں، ادبی میلوں اور کانفرنسوں کے مسلسل انعقاد نے ہماری فکری تجسس کو تسکین پہنچانے کے بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں ۔لیکن ان سالانہ تقریبات میں گفتگو کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے بجائے اکثرو بیشتر ان مواقعوں کو مارکیٹنگ کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

رواں سال عالمی اردو کانفرنس تازہ ایڈیشن میں کچھ دلچسپ حقائق سامنے آئے ۔اس کے باوجود بحث و مباحثے کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا تھا تاکہ نوجوان نسل سے مطابقت رکھنے والے رجحانات کو بھی شامل کیا جا سکے۔

ہماری مادری زبان اُردو، اس کانفرنس کی جان تھی ۔ یوں لگتا ہے کہ برسوں سے ہماری مادری زبان کو وقت سے پہلے ہی متروک سمجھ کر دم توڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اردو کی وفات کے حوالے سے طنزو مزاح پر مبنی جملے سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں ۔لہذا، ایک ایسی کانفرنس کا مشاہدہ کرنا یقینی طور پر خوش آئند ہے جس کا مقصد ایک ایسی زبان کو زندگی فراہم کرنا ہے جو ممکنہ طور پر معدومیت کے دہانے پر کھڑی ہے۔تاہم اس سال منعقد ہونے والی کانفرنس نے ا س زبان کو ایک ایسے لاچار مریض کے طور پر نہیں سمجھا جو ایمرجنسی روم آخری سانسیں گن رہا ہو۔اپنے پچھلے ایڈیشنوں کی طرح،اس کانفرنس نے ہمارے ملک میں مختلف زبانوں کی حالت زار کی نشاندہی اور اصلاح کے لیے اردو کو ایک محرک کے طور پر استعمال کیا ، اس کے ساتھ ہی ہماری مادری زبان کو سماجی ناانصافیوں کو سمجھنے کے لیے ایک عینک کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ۔سندھی، سرائیکی اور بلوچی ادب پر بھرپور انداز میں سیشنز منعقد کیے گئے ،جن میں پاکستان کے مختلف اور جامع لسانی منظرنامے کو ظاہر کرنے کے لیے اردو کو مربوط زبان کے طور پر استعمال کیا گیا۔نتیجے کے طور پر، اردو ایک طرح سے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئی ۔

ایک سے زائد زبانیں ، ایک معجزہ:

افتتاحی تقریب میں نماں طور پر ایک سے زائد زبانوں کو سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ماہر لسانیات ڈاکٹر الیکس بیلم نے تقریب کے دوران انگزیزی زبان میں خطاب کیا،اپنی تقریر کے دوران انہوں نے بعض اردو اور سندھی زبان کے جملوں کا بھی استعمال کیا۔ ڈاکٹر الیکس بیلم کی جانب سے انگریزی زبان میں تقریر کرنے سے شرکاء کو خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ بقول ان کے ، پاکستانی عوام مختلف زبانوں کو بولنے اور سمجھنے کے عادی ہوچکے ہیں ۔

تاہم الیکس بیلم کی تقریر کا مواد واضح طور پر سمجھنے کے قابل تھا۔انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ملک کی دیگر زبانوں کے پاکستان سے پیچیدہ تعلقات کو واضح کرنے کےلیے انگریزی اور اردو زبان کو ایک پل کے طور پر استعمال کیا۔ اگر آنجہانی لارڈ میکالے اُس شام کو آرٹس کونسل میں موجود ہوتے تو وہ اپنے ڈراؤنے خواب کی تعبیر دیکھ کر حیران رہ جاتے۔افتتاحی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں معزز ماہر لسانیات ڈاکٹر الیکس بیلم نےاردو کانفرنس کو ثقافت کے اظہار کے طور پر مناتے ہوئے ایک ’ قابل قدر اور بروقت‘ اقدام قرار دیا۔ ڈاکٹر الیکس بیلم نے اپنی تقریر میں پاکستان کے بھرپور لسانی منظرنامے کی طرف توجہ مبذول کروائی، جو کہ ہماری ثقافتی زبانوں کی بقاء اور ان کی بدولت آگے بڑھنے کے انوکھے طریقوں کی ایک خوش آئند مثال ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک سے زائد زبانیں بولنے کے طریقے پر عمل کرنے کی بدولت لوگ بہتر اور غیر محسوس انداز میں اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں۔

Advertisement

افتتاحی سیشن کے دوسرے اہم مقرر ناصر عباس نیئر نے ایک اور خامی کی طرف اشارہ کیا جس کی وجہ سے ہماری لسانی روایات کافی حد تک اثر انداز نظر آتی ہیں ۔ان کا کہنا تھاکہ 21ویں صدی میں ’ ڈیجیٹل کنٹرول ‘ کے خطرات نے ہماری تنقیدی سوچ پر مبنی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے، جو ادب سمیت دیگر پیداواری کوششوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ناصر عباس نیئر نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے منفی اثرات کا حوالہ دینا عام بات ہے لیکن سیاق و سباق میں یہ کافی حد تک منطقی معلوم ہوتا ہے۔

افتتاحی تقریب کے دوران شاعرہ زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی کانفرنسوں میں خلائی باتیں نہیں کی جاسکتیں ، اس طرح کے پروگرا م میں معاشرے کے حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔انہوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہاکہ مہنگائی نے عوام کا باعزت طریقے سے جینا مشکل کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زبان کی جڑیں ان لوگوں کی حقیقتوں میں چھپی ہوتی ہیں جو اسے بولتے ہیں۔شاعرہ زہرہ نگاہ نے اردو کی فکری غربت کے بارے میں بھی مختصراً بات کی،انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ زبانیں ایسے خزانوں کی طرح ہیں جو اردو ادب کو بھی مالا مال کر سکتی ہیں۔

اردو بطور ادبی زبان:

چار روزہ پروگرام کے دوران سامعین نے اردو ادب پر بحث کے وسیع دائرہ کار کا مشاہدہ کیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ ہماری قومی زبان ابھی بھی زندہ ہے اور اپنی بقاء کےلیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ادبی سرگرمیوں میں موجودہ اور مستقبل کے رجحانات کا جائزہ لینے کے لیے کمال اندا ز میں پیش کیے جانے والے سیشنز کی کوشش کی گئی۔بعض اوقات ان میں سے کچھ مباحثوں کو ایک مختلف نقطہ نظر اور عالمی نظریہ کے ساتھ نوجوان پینلسٹس کی موجودگی کے ذریعے تقویت بخشی جا سکتی تھی۔

 21 ویں صدی میں اردو ناول کی سمت پر بحث کافی حد تک مفید اور معلوماتی ثابت ہوئی۔21 ویں صدی میں اردو شاعری پر ایک بصیرت انگیز سیشن میں، پینلسٹس نے مرد اور خواتین شعراء کی حساسیت اور غزل کی ارتقائی نوعیت کے فرق کو واضح کیا۔پینلسٹ میں شامل ایک مقرر نے اردو میں شاعری کے قارئین کی کم ہوتی ہوئی فکری صلاحیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔یہ بات نئے شاعروں کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث ہے ۔سامعین کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ اردو کے نوجوان شاعر اس چیلنج سے کیسے نمٹیں گے؟

’ اقبال اور قوم ‘کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں شاعر علامہ اقبال کی خدمات کا جائزہ لیا گیا۔اسکالر محمد سہیل عمر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے لیے شاعر مشرق کی اہمیت مغربی فلسفے کے ساتھ ساتھ اُن تمام سرگرمیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے جس کے وہ خود ہی ہمارے اپنے فلسفے کے خلاف سمجھتے تھے۔اس کے ساتھ ہی اردو اور فارسی کے حوالے سے شاعر مشرق کی خدمات وجود انسانی کے اہم سوالات کی روشنی میں قیمتی بصیرت فراہم کرتی ہیں۔ محمد سہیل عمر نے دلیل پیش کی کہ نوآبادیاتی دور میں ایک سیاسی منتظم کے طور پر علامہ اقبال کے کردار نے انہیں پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین شخصیت قرار دیا ہے ۔

Advertisement

محمد سہیل عمر نے دلیل دی کہ اردو اور فارسی میں شاعر کا کام انسانی وجود کے اہم سوالات کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کرتا ہے۔انہون نے کہا کہ نوآبادیاتی دور میں ایک سیاسی مصلح کے طور پر اقبال کے کردار نے بھی انہیں پاکستان کی تاریخ کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

ایک اور ممتاز اسکالر نعمان الحق نے اقبال کی شاعرانہ شہرت کا جائزہ لیا جبکہ ماہر لسانیات ڈاکٹر تحسین فراقی نے اقبال کو سمجھنے کے لیے فارسی سیکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔اگرچہ یہ سیشن د لچسپ ثابت ہوا، لیکن اقبال کی شاندار میراث پر نوجوان قارئین کی رائے جاننا بھی واقعی دلچسپ ہوگا۔

ضیا محی الدین کی موجودگی میں ترتیب دئیے گئے ایک سیشن میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی ، اس سیشن میں مقبول ٹیلی ویژن براڈکاسٹر نے علامہ اقبال پر غلام احمد پرویز کی لکھی ہوئی تقریرسنائی جب کہ جمیلہ خاتون نے فیض احمد فیض کی یادوں کو تازہ کیا۔ ضیا محی الدین نے اس سیشن میں زہرہ نگاہ، مشتاق احمد یوسفی اور شیخ ایاز کے کلام کو بھی شامل کیا ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس طرح کے زیادہ تر فیسٹول اور کانفرنس اس طرح ترتیب دئیے جاتے ہیں کہ وہ پسندیدہ شخصیت کی بدولت سامعین کی بڑی تعداد کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔

تاہم، کانفرنس کی کامیابیوں پر صرف منفی خصوصیات اور چمک دمک کو اجاگر کرنا غلط ہوگا۔ ردو میں ادبی تنقید کے بنیادی اصولوں پر سب سے زیادہ پُرجوش گفتگو ہوئی۔ زبان کی زندگی اس میں کی جانے والی صحافتی سرگرمیوں کی صحت سے جڑی ہوئی ہے۔یہ بھی ایک بحث کا موضوع تھا جس نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران اردو صحافت کی گرتی ہوئی رفتار پر افسوس کا اظہار کیا۔

چند سیشنز میں مشتاق احمد یوسفی جیسی بڑی ادبی شخصیت کے ساتھ ساتھ حال ہی میں وفات پانے والے دیگر شاعروں کے کام کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔سندھی اور اردو کے شاعر امداد حسینی، نقاد شمیم حنفی، فاروق قیصر، شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کو بھی خوبصورت الفاظ میں یاد کیا گیا۔ماضی کے ساتھ گہری وابستگی خارجی ہونے کا خطرہ رکھتی ہے اگر یہ حال یا مستقبل کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔اس کے باوجود ان سیشنز نے شائقین کو اپنے پسندیدہ مصنفین کے بارے میں بات چیت کے لیے اگلی قطار میں نشست فراہم کی۔

متفرق خدشات:

Advertisement

زبان ایک سیاسی ہتھیار ہے۔ پھر بھی کمال پسند افراد کاخیال ہے کہ اس طرح کی کانفرنس میں زبان کی بقاء کی خوشی منائی جانی چاہیے اور سیاسی گفتگوسے پرہیز کرنا چاہیے۔حالیہ کانفرنس نےبڑے آرام نے خراب ذہنیت کے حامل حکمرانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ادبی اور لسانی موضوعات کے علاوہ چند سیشنز نے سیاست، ریاست سازی، تعلیم اور معاشرے میں خواتین کے کردار سے متعلق معاملات پر گہری نظر ڈالی۔حامد میر نے ہمارے سیاسی تانے بانے کو متاثر کرنے والے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔آزادی صحافت، بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور صدارتی نظام کے خطرات اہم بات چیت کے نکات میں شامل تھے۔ملک کے تعلیمی بحران پر ایک معلوماتی بحث کے دوران ماہرین تعلیم نے نشاندہی کی کہ تعلیم کے لیے ناکافی فنڈنگ نے ہمارے اسکولوں اور جامعات کو تنزلی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ بعض مقررین نےسرکاری اسکولوں کے بگڑتے ہوئے معیار اور تعلیمی اداروں میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں ناکامی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ہمارے جدید دور کی حقیقتوں پر نئے میڈیا کے تبدیلی کے اثرات پر ایک روشن خیال گفتگو۔ کانفرنس کے اختتامی روز شاعر و ادیب انور مقصود نے21 ویں صد ی میں پاکستانی تناظر میں ایک سیاسی مزاح سے بھرپور مضمون پڑھا جس نے حاظرین کو نہایت محظوظ کیا۔ ان تمام سیشنز نے خوش آئند طور پر ثابت کیا کہ زبان کے موضوع پر بات چیت کے لیےعلم کی ایک سے زیادہ شاخوں کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

قرارداد کے نکات :

کانفرنس کے اختتام پر 14 نکاتی قرارداد پیش کی گئی تھی جسے حاضرین نےاپنے ہاتھ کھڑے کرکے متفقہ طور پر منظور کروا لیا۔ پہلی نظر میں، یہ ایک کاسمیٹک (بناوٹی)اقدام معلوم ہوتا ہے جس میں سیاسی بیان بازی کی روح موجود تھی۔ اگر ایسا ہوتا توشکوک و شبہات اور تجسس کا ملا جلا رد عمل یقینی طور پر متوقع ہوتا۔بہر حال اردو کو سرکاری زبان کے طور پر بلند کرنے کے کمزور وعدے پہلے بھی کیے جا چکے ہیں۔تاہم قرار داد کو نمایاں حیثیت حاصل رہی کیونکہ یہ ملک کے سماجی حقائق سے الگ نہیں تھی۔اس نے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو لائبریری کلچر اور اداروں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کی یاد دلادی تاکہ مزید تررجمے کیے جاسکیں ۔ قرارداد کے مزید چند نکات میں حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی اظہار رائے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے اوران کی ترقی کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔عالمی اردو کانفرنس میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد ایک طرح سے اس بات کی یاد دہانی تھی کہ کسی زبان کو محفوظ کرنا ، گرائمر کی درستگی یا لغت کے بارے میں خدشات سے بالاتر ہے۔زبانیں تب ہی محفوظ رہ سکتی ہیں جب وہ دوسری زبانوں کا احترام کریں اور اُن معاشروں سے جڑی رہیں ،جہاں انہیں زندہ رکھنا ضروری ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
3 سالہ میکرو اکنامک اور فسکل فریم ورک جاری،معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصدتک جانے کی توقع
ترجمان طالبان نے استنبول مذاکرات سے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، پاکستان
سابق وزیراعلیٰ سندھ اور سینئر پی پی رہنما آفتاب شعبان میرانی انتقال کرگئے
خامنہ ای نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق امریکا کو واضح اور سخت پیغام دے دیا
بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول ، مولانا فضل الرحمان پٹڑی سے اتر گئے
مشرقی محاذ پر شکست کے بعد مودی کی بولتی بند ہو گئی ، خواجہ آصف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر