نیٹ فلکس کی ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ ڈی ایچ لارنس کے ناول کی جزوی سچائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ایسے حقائق کا احاطہ کرتی ہے جو ناگوار معلوم ہوتے ہیں
ڈی ایچ لارنس کا ناول ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ جب 1920ء کی دہائی میں پہلی بار شائع ہوا تو سماجی اقدار کی اس قدر کھلم کھلا خلاف ورزی کی وجہ سے اسے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ناول کی کہانی ایک اعلیٰ طبقے کی شادی شدہ عورت اور ایک محنت کش طبقے کے آدمی کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات پر مبنی ہے جو اس کے شوہر کا ملازم ہے۔ ناول کے قارئین کی ناراضگی فطری تھی کیوں کہ مصنف نے ایک حساس موضوع کا انتخاب کیا تھا اور اس نے ایک ایسے دور میں خواتین کی جنسیت کی ایک جرات مندانہ تصویر کشی کی تھی جب اس موضوع پر عوامی طور پر بات نہیں کی جاتی تھی۔ نتیجتاً ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ کو بہت زیادہ بدنام کیا گیا، سنسر کیا گیا اور یہاں تک کہ اس پر پابندی عائد کردی گئی۔
ناول ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ کانسٹینس نامی عورت پر گہری نظر ڈالتا ہے جسے کونی کہا جاتا ہے اور جو کلیفورڈ چیٹرلی (ایک موروثی امیر اور فوجی جو پہلی جنگ عظیم میں مفلوج ہو چکا تھا) کی بیوی ہے۔ محبت سے محروم اپنی شادی کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہونے والی کونی کا کلیفورڈ کے جانوروں کے رکھوالے اولیو میلرز کے ساتھ ایک پرجوش تعلق شروع ہوجاتا ہے جو جنگ کے بعد اپنے اندر کے جذباتی شیطانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس زمانے میں اس طرح کی سنگین غلطیوں کی سزا دی جاتی تھی لیکن مصنف نے اپنے ناول کو کونی اور اولیور کے طرز عمل کو ملامت کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ اس کے بجائے، کہانی ایک مرد کی ذہانت کا احترام کرنے اور اس کے ساتھ دیوانہ وار محبت میں مبتلا ہونے کے درمیان فرق کے ایک سنجیدہ امتحان میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
کئی دہائیوں کے دوران، لیڈی چیٹرلیز لوور کے متعدد فلم اور ٹیلی ویژن ریمیک تیار کیے گئے ہیں جو ناول کی رسواکن ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیٹ فلکس کا انتخاب اس میدان میں شامل ہوکر اپنے ریمیک کی شکل میں ایک کلاسک کو زندہ (اگرچہ مکمل طور پر نہ سہی) کرنے کی ایک کوشش ہے۔
تاہم، یہ ریمیک لارنس کے قارئین کے مقابلے میں کافی مختلف قسم کے ناظرین کو اپنا ہدف بناتا ہے۔ جدید دور کے ناظرین اتنے قدامت پسند نہیں ہیں جتنے وہ کبھی ہوا کرتے تھے۔ وہ لوگ جو سماجی اصولوں کی خلاف ورزی اور اس سے متعلق واضح مواد کے اپنی اسکرینوں پر ظاہر ہونے پر آسانی سے ناراض نہیں ہوتے، انہیں بے وفائی اور بین الطبقاتی رشتے کے حوالے سے یہ کہانی دلچسپ لگ سکتی ہے۔ زیادہ کھلے ذہن کے ناظرین کو غیر ازدواجی تعلقات کی کہانیاں صریحاً حد سے تجاوز کرنے والی نظر نہیں آتی۔
لیڈی چیٹرلیز لوور کے ریمیک پر عوامی ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو ناظرین کے رویوں میں تبدیلی ہی اس کی اصل روح ہے۔ ناول کی تشریح کے لیے اکثر استعمال ہونے والا نقطہ نظر تخفیف پسند رہا ہے جو لارنس کے ارادوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔ یہ ناول برطانیہ میں سخت طبقاتی ڈھانچے اور دیہی علاقوں کی تیز رفتار صنعت کاری پر شدید تنقید کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ناول کے ان پہلوؤں کو عام طور پر قارئین اور فلمسازوں نے نمایاں کیا ہے جنہوں نے ناول کو ڈرامائی شکل دی ہے۔ اس کے بجائے، توجہ کا مرکز اب بھی ایک جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے ملازم کے ساتھ لیڈی چیٹرلی کا پرجوش تعلق ہی ہے۔
لہذا، یہ قابل جواز ہے کہ ناقدین نیٹ فلکس ریمیک سے ہوشیار رہیں گے۔ اسٹریمنگ سروس کی جانب سے جین آسٹن کے نظریات (19 ویں صدی کے برطانیہ میں سماجی طبقے کی حرکیات پر ایک پختہ تبصرہ) کو مادّے سے عاری ایک دقیانوسی ’چِک فلِک‘ میں تبدیل کرنے کے بعد ناظرین کے مزید فکر مند ہونے کا امکان ہے۔
فلم کے ناقدین کے پاس فکر مند ہونے کے لیے اچھی وجہ موجود ہے۔ لارنس کے ناول کا نیٹ فلکس ریمیک رومانوی اور واضح طور پر سوشلسٹ موضوعات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ناظرین جو برطانیہ میں طبقاتی نظریات پر مطمئن رویے کے حوالے سے لارنس کی خشک مزاجی سے واقف ہیں وہ کہانی کی جڑوں کو ضرور سمجھ سکیں گے۔
جنگ عظیم کے بعد حکومت نے کان کنوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کا مطالبہ کیا تھا اور اس فیصلے نے متعدد احتجاجی تحریکوں کو جنم دیا تھا۔ یہ فیصلہ اشرافیہ کے منافع کو محفوظ بنانے کے لیے کیا گیا تھا کیونکہ کوئلے کی چٹانیں بری طرح ختم ہو چکی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی، مشینوں کے استعمال کو بحران کے لیے ایک مناسب تریاق کے طور پر تجویز کیا جا رہا تھا کیونکہ اس سے پیداوار کی شرح میں اضافہ ہوتا۔ ان حالات میں لارنس نے انگلستان میں طبقاتی جنگ کی پیش گوئی کی۔ لیڈی چیٹرلیز لوور معاشرے میں ممکنہ تصادم کے بارے میں مصنف کے خدشات کا اظہار کرتا ہے۔
نیٹ فلکس کا ریمیک ان مسائل کو باریک بینی سے دیکھتا ہے۔ دیہی صنعت کاری کی حقیقتیں دبے معنوں میں کہانی کے پس منظر کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عوامی اور نجی ڈومین تنہائی میں موجود ہیں اور صرف سطحی انداز میں ایک دوسرے کو آپس میں ملاتے ہیں۔ بعض اوقات، نسبتاً ذاتی نوعیت کے واقعات جو چیٹرلی کی محلاتی جاگیر میں رونما ہوتے ہیں عوامی ڈومین کے اندر ہونے والی پیش رفت کے برابر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کانوں میں مشینوں کا استعمال شروع کرنے کے لیے کلیفورڈ کی رضامندی کونی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کان کنوں کی حالت زار کے بارے میں اس کی بے حسی کو پہچان سکے۔ وقت کے پریشان کن موڈ کے ان کبھی کبھار حوالوں کے علاوہ، سماجی و سیاسی ماحول اکثر اولیور اور کونی کے درمیان رومانس کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
لارنس کا ناول فطرت کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتا ہے، یہ ایک ایسا نقش ہے جسے نیٹ فلکس کے ریمیک میں بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ درحقیقت، لیڈی چیٹرلیز لوور نے کرداروں کے اندرونی ہنگاموں کا مقابلہ کرنے کے لیے فطرت کی شاندار خوبصورتی اور ماحول پر صنعت کاری کے تباہ کن اثرات کے درمیان تضاد پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ جہاں ایک طرف فلم فطرت کے لیے کونی کی تعریف کا ایک حوالہ پیش کرتی ہے وہیں اس نقش کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
فلم کے طور پر موافقت کے لیے ناول کے ساتھ انصاف کرنا مشکل ہے۔ ’دی سنیما‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں مشہور ناول نگار ورجینیا وولف نے فلموں کو طفیلی جدوجہد سے تشبیہ دی ہے جنہیں خود اپنی زندگی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ 2022ء کا ریمیک بنیادی طور پر ایک محبت کی کہانی کے طور پر سامنے آیا ہے، اس کے بجائے بہتر ہوتا کہ طبقاتی جدوجہد کی ایک حیرت انگیز فرد جرم عائد کی گئی ہوتی۔
یہ ایک تازگی بھرا احساس ہے کہ نیٹ فلکس کا ریمیک اس معاملے کی ایک ہتک آمیز تصویر کشی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ کرداروں کو ان کے انتخاب کے لیے سزا نہیں دی جاتی۔ اس کے بجائے، وہ خوشی اور انفرادی تخلیق نو کی جستجو میں نیک نیتی کی حامل شخصیات کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ لارنس کو کونی اور اولیور کے تعلقات کے بارے میں مردانہ نظریہ فراہم کرنے پر بھی سرزنش کی گئی ہے اور نیٹ فلکس کا ریمیک اس تاثر کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنس کی تصویر کشی بے جا نہیں ہے اور ایک پرانے دور میں خواتین کی جنسیت کو دریافت کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
وہ ناظرین جو لیڈی چیٹرلیز لوور کو پہلی بار اس نیٹ فلکس ریمیک کے ذریعے دریافت کر رہے ہیں وہ اس کی زبردست پرفارمنس، ڈرامائی موڑ اور اس بات کی عکاسی کے لیے فلم سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں کہ تنہائی ہمارے دلوں اور دماغوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔ ہم میں سے جو لوگ اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کہ فلم اس ناول کو بیساکھی کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی، وہ بھی نیٹ فلکس کے ریمیک کے بارے میں اپنے جائزے میں کافی فراخدل ہو سکتے ہیں۔ بہر حال، اگر یہ اس دور کی ہنگامہ خیزی کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے جس کی یہ اسکرین پر تصویر کشی کرنا چاہتی ہے تو فلم کو ایک دور پر مبنی ڈرامہ سمجھنا کسی حد تک بے ایمانی ہو گی۔ نیٹ فلکس کی لیڈی چیٹرلیز لوور، ڈی ایچ لارنس کے ناول کی جزوی سچائیوں کو اجاگر کرتی ہے اور ایسے حقائق کا احاطہ کرتی ہے جو ناگوار معلوم ہوتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News