Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

جابرانہ تعطل

Now Reading:

جابرانہ تعطل

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بیک چینل مذاکرات “ڈیلیور کرنے میں ناکام” رہے ہیں — کم از کم اس وقت تک — کیونکہ دونوں فریقوں کی ترجیحات اور مقاصد کے درمیان بہت بڑا خلا موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تو واضح مسئلہ ہے لیکن اس سے جڑے کئی دوسرے اہم نکات ہیں جن پر دونوں فریقین متفق نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت اور اعلی عسکری حکام کی نو یا دس بیٹھکیں ہو چکی ہیں جن میں ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات بھی شامل ہے جس میں عمران خان خود شریک ہوئے تھے۔ ذرائع نے بتایاکہ پس پردہ ہونے والے یہ رابطے تعطل کو ختم میں ناکام رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ تمام سیاسی کھلاڑیوں کو ایک یکساں میدان دینا چاہتی ہے، جن میں بدعنوانی کے جرم میں سزایافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف جیسے مجرم بھی شامل ہیں۔ عمران خان پر دباؤ ہے کہ وہ انسداد عنوانی کا بیانیہ ترک کر کے مستقبل پر توجہ دیں۔ ذرائع کے مطابق، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ اگلے عام انتخابات غیر متنازعہ رہیں، جنہیں ملک میں سیاسی استحکام کی شرط کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن عمران خان کے لیے، انسداد بدعنوانی مہم سے پیچھے ہٹنا ان کی پوری سیاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ احتساب ان کی جماعت کی بنیاد ہے۔

Advertisement

اقتدار کے ایوانوں میں احتساب کے عمل کی طرف سے بدلتے مزاج کا ایک اشارہ اس حقیقت سے ملتا ہے کہ بدعنوانی کے کئی ہائی پروفائل مقدمات پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ مقدمات کے ختم ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ وزیراعظم شہباز شریف، ان کے صاحبزادے، سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی سیاسی رفقا اور معاونین کو پہنچا ہے۔

احتساب قوانین میں متنازع ترامیم کے بعد، جو شہباز شریف حکومت کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد کی گئی تھیں، قومی احتساب بیورو (نیب) کو 200 سے زائد مقدمات واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ نیب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے دیگر کئی مقدمات، خاص طور پر جن میں سیاستدان ملوث ہیں، آنے والے دنوں اور ہفتوں میں واپس لے لیے جائیں گے۔

تاہم، حکومت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات شروع کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعطل جاری رہا تو کچھ گرفتاریاں اور سزائیں بھی ہوسکتی ہیں۔

بدلتے وقت کی ایک نشانی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے متنازع توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جھوٹے بیانات دینے اور غلط ڈکلیریشن جمع کرانے پر عمران خان کو آرٹیکل 63(1)(p) کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق عمران خان موجودہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک نااہل رہیں گے۔

پی ٹی آئی کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے، اور وسط سے طویل مدتی وزیراعظم کے طور پر اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نام سامنے آرہا ہے۔ لیکن فی الحال، منصوبہ یہی نظر آتا ہے کہ یپلز پارٹی صوبہ سندھ میں اپنا اقتدار برقرار رکھے گی۔

عمران خان متعدد تقاریر اور ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو ان کی پارٹی احتساب کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا سکی کیونکہ بالواسطہ مداخلت اور دباؤ تھا اور نظام ان سیاستدانوں کو تحفظ فراہم کرتا نظر آیا جو اس بدعنوانی میں ملوث تھے۔

Advertisement

انسداد بدعنوانی کے بیانیے کے علاوہ خارجہ پالیسی کے بعض معاملات بھی متنازعہ ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم، پی ٹی آئی کے ذرائع نے ان کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین کے درمیان بھارت کے حوالے سے پالیسی پر بھی اتفاق رائے نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر بعض افراد پر اعتراضات بھی ہیں، جس کی وجہ سے یہ بیک چینل بات چیت مزید پیچیدہ ہوگئی۔

آزاد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے فوجی اعلیٰ افسران کے خلاف جارحانہ لہجے اور ان کے خلاف استعمال کیے گئے استعاروں سے بھی دونوں فریقوں کے درمیان بگاڑ پیدا ہوا جو کبھی ایک ہی صفحے پر نظر آنے میں خوش تھے۔

عمران خان کی عسکری قیادت کو بدنام کرنے کی کوششوں کو ادارے میں اچھا نہیں سمجھا گیا اور ان کے ان ریمارکس کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی ہے جنہیں غیرذمہ دارانہ کہا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو درست نہیں کرلیتے تب تک وہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود سیاسی تنہائی کا شکار رہیں گے۔

عمران خان کو اس مخمصے کا سامنا ہے کہ آیا اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لینا ہے یا سیاسی تعطل کو توڑنے کی کوشش میں بیک چینل رابطوں کو جاری رکھنا ہے۔ پارٹی کے اندر ، خاص طور پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مظاہروں اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنےکے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے اندر ہی سے ذی فہم آوازیں تحمل سے کام لینے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کو جاری رکھنے پر زور دے رہی ہیں۔

مستقل میں عمران خان اور ان کے پیروکاروں کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر کے اپنے اہم حریف کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ تاہم، بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی نہ صرف عمران خان اور ان کی پارٹی کے لیے بلکہ اس ملک کے لیے بھی مشکلات کا باعث ہوگی جو پہلے ہی سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے دہرے بحران کا شکار ہے۔

Advertisement

لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اعتدال پسند آوازیں سیاسی تعطل کے جلد از جلد حل کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ ملک ان حقیقی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کر سکے جن میں سنگین معاشی چیلنج سے نمٹنا اولین ترجیح ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
3 سالہ میکرو اکنامک اور فسکل فریم ورک جاری،معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصدتک جانے کی توقع
ترجمان طالبان نے استنبول مذاکرات سے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، پاکستان
سابق وزیراعلیٰ سندھ اور سینئر پی پی رہنما آفتاب شعبان میرانی انتقال کرگئے
خامنہ ای نے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق امریکا کو واضح اور سخت پیغام دے دیا
بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول ، مولانا فضل الرحمان پٹڑی سے اتر گئے
مشرقی محاذ پر شکست کے بعد مودی کی بولتی بند ہو گئی ، خواجہ آصف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر