اس وحشیانہ قتل نے ارشد شریف کو بھلے ہی خاموش کر دیا ہو، لیکن جواب مانگتی اور انصاف کے لیے پکارتی آوازوں کی بازگشت مسلسل جاری ہے
11 ستمبر کو جب میں نے ان سے فون پر بات کی تو ارشد شریف پاکستان سے باہر کسی نامعلوم مقام پر تھے۔ میرے خیال میں انہیں یقین تھا کہ اب، پاکستان کی سرحدوں سے باہر، وہ محفوظ ہیں۔ ان کے تمام دوستوں اور خیر خواہوں کا بھی یہی خیال تھا۔ میں نے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں – لندن میں یا کہیں اور۔ وہ ٹال مٹول کررہے تھے۔ صورتحال کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اور سوال کا جواب دینے میں ان کی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے میں نےا س پر زور نہیں دیا۔ 10 اگست کو ارشد شریف کے پاکستان چھوڑنے کے بعد یہ ان سے ٹیلی فون پر میری پہلی اور آخری بات چیت تھی۔
فون پر ہماری گفتگو اگرچہ مختصر تھی، مگر یہ ہلکی پھلکی اور پُرامید تھی۔ میں اس بے پناہ خطرے سے بے خبر تھا جس میں وہ گھرے ہوئے تھے، اور پوچھا کہ کیا وہ لطف اٹھارہے ہیں۔ اور ارشد، ارشد ہوتے ہوئے، اپنے مخصوص پرسکون اور مستحکم انداز میں میری ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کی جبری جلاوطنی بھی گزر جائے گی اور تین سے چار ماہ میں ان کے لیے پاکستان واپس آنا محفوظ ہو جائے گا۔ انہوں نے ان مشکلات کا ذکر نہیں کیا جن کا وہ سامنا کر رہے تھے، یا کسی ممکنہ خطرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ ہم تھوڑی دیر باہمی دل چسی کے موضوعات پر گفتگو کرتے رہے، اور پھر بوقت ضرورت رابطہ کرنے کے وعدے کے ساتھ بات چیت کا اختتام کردیا۔
بہت سے صحافی، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے کیریئر کے کسی نہ کسی موڑ پر تنازعات کی رپورٹنگ سے منسلک رہے ہیں، مزاح کا گہرا احساس پیدا کرلیتے ہیں۔ وہ حقائق کو رپورٹ کرنے اور کہانی بیان کرنے کی کوشش حتیٰ کہ اپنے آس پاس جنم لیتے المیے، غم و اندوہ اور غیر معمولی حالات کے درمیان بھی ہنستے ہیں، لطیفے سناتے ہیں، اور عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور وہ اکثر اپنے آپ کو کسی بھی قدرتی یا انسان ساختہ آفت، بشمول تنازعہ اور جنگ کے اگلے محاذ سے رپورٹ کرنے کے لیے خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔
ارشد شریف پاکستان میں تنازعات کے حوالے سے مشہور صحافیوں میں سے ایک تھے۔ وہ انتہائی خطرناک اور دور دراز علاقوں میں جاچکے تھے اور انہوں نے، اکثر خود کو خطرے میں ڈال کر، متعدد انتہائی سخت اسائنمنٹس پورے کیے تھے۔ اور اس دوران انہوں نے کہیں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا۔ صرف معروضی اور ٹھوس حقائق… یہاں صحافت اپنے عروج پر تھی۔
مجھے کبھی بھی ارشد کے ساتھ کسی ادارے میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ اسلام آباد میں مقیم تھے اور میں زیادہ تر کراچی میں ہوتا ہوں، اور اس لیے ہماری چند ہی بار ملاقات ہوپائی۔ پھر بھی، اس دوری کے باوجود، کوئی بھی تحقیقاتی رپورٹر سے لے کر پاکستان کے حالات حاضرہ کے پروگراموں کے ممتاز ترین میزبانوں میں شمولیت تک ان کا ارتقا دیکھ سکتا تھا۔
ایک اینکر پرسن کے طور پر، انہوں نے رپورٹنگ کے اپنے تجربے کو حقائق اور تحقیقاتی رپورٹس سے بھرپور پروگراموں میں استعمال کیا۔ وہ چبھتے ہوئے سوالات پوچھتے تھے، لیکن ان کی خوش خلقی اور شرمیلی مسکراہٹ ان سوالات کی چبھن پر غالب آجاتی تھی۔ ان کی چبھتے ہوئے اور کٹیلے سوالات کے باوجود اپنے ٹاک شو کے مہمانوں کو تیزی و تندی سے دور رکھنے کی صلاحیت نے انہیں آن اسکرین بقیہ ہجوم سے الگ کردیا تھا۔
ارشد شریف اس جنگ کے صف اول کے سپاہیوں میں شامل تھے جسے کبھی چوتھی یا پانچویں نسل کی جنگ قرار دیا جاتا تھا۔ اس پر پاکستان کی محدود لیکن بااثر لبرل برادری مایوس اور طیش میں تھی۔ ایک پرجوش پاکستانی قوم پرست کے طور پر، انہوں نے پاکستان کی مقامی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے دوران وہ سب سے آگے رہے، اور اکثر اگلے محاذ سے رپورٹنگ کرنے کے لیے تنازعات سے متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے۔ نظریاتی بنیادوں پر بھی جب بھی ملک اور ریاستی اداروں کے خلاف کوئی منظم مہم چلائی گئی وہ بڑی جراتمندی سے ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ اور ایک سخت قوم پرست کے طور پر، وہ برملا اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
یہ تو ستم ظریفی ہے کہ اس قابل فخر، بے باک محب وطن، ارشد شریف کو رہ کرنے کی وجہ سے یے پاکستان چھوڑنا پڑا جو اس نے ہمیشہ کیا تھا، یعنی اپنے ملک کی حمایت کرنا اور انسداد بدعنوانی کے بیانیے کو جاری رکھنا۔ لاتعداد پاکستانیوں، اور یہاں تک کہ میڈیا میں بھی بہت سے لوگوں کی طرح، ارشد بھی پاکستان کے دو اہم سیاسی خاندانوں – شریفوں اور زرداریوں – کی قسمت کی اچانک تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے تھے، جن پر اعلیِ عدالتوں اور اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی، خراب حکمرانی اور بدانتظامی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
بہت سے لوگوں کی طرح ارشد کو بھی غصہ آیا کہ اچانک ہوا کا رخ کیسے بدل گیا۔ احتساب کے قانون کو خاص طور پر مٹھی بھر سیاسی خاندانوں اور ان کے معاونین کی مناسبت سے تبدیل کیا گیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بہت کم شرکت ہوئی، احتساب قانون میں ترامیم پر سنجیدہ بحث کا کوئی ڈھونگ تک نہیں ہوا۔ راتوں رات وہی لوگ جو نہ صرف ملک کی لوٹ مار میں ملوث تھے بلکہ جنہوں نے مسلح افواج کے خلاف منظم مہم چلائی تھی، فورسز کے اہلکاروں کو رشوت دینے اور ادارے کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی، وہی لوگ دوبارہ مسند اقتدار پر براجمان ہو گئے۔
اسلام آباد میں حکومت کی اس متنازع تبدیلی پر بہت سے پاکستانیوں نے جو صدمہ محسوس کیا وہ ارشد شریف کے کرنٹ افیئرز شوز میں دیکھا جا سکتا تھا۔ دن بہ دن، تمام مشکلات اور دباؤ کو ٹالتے ہوئے، وہ سوال کرتے رہے اور نئے ارباب اختیار کو بے نقاب کرتے رہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ پہلے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے، اور پھر محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ کینیا کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہی پاکستان میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر دبئی چھوڑنے کی ہدات کے بعد انہوں نے کینیا میں پناہ لے لی تھی۔
ارشد شریف کو جس طرح مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا اس سے ان کے آخری لمحات کے بارے میں لامتناہی سوالات اٹھتے ہیں۔ کینیا پولیس کے بدلتے ہوئے اور متضاد بیانات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ارشد کا قتل غلط شناخت کا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔
ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ ارشد کی گاڑی پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ کسی چیک پوسٹ یا رکاوٹ نہیں رکے۔ لیکن اس ورژن پر یقین کرنا مشکل ہے کیوں کہ ارشد متنازع زون کے ایک تجربہ کار رپورٹر ہونے کے ناطے پولیس کو چکمہ دینے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ تمام صحافی، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے خطرناک حالات میں کام کیا ہے، جب بھی کوئی سیکورٹی پوسٹ ہو تو وہ معیاری لائحہ عمل جانتے ہیں: اپنی گاڑی کو روکیں، اگر اندھیرا ہو، ہیڈلائٹس بند کر دیں، کیبن کی لائٹ آن کریں، اور دونوں ہاتھ اسٹیئرنگ پر رکھیں تاکہ سیکیورٹی اہلکاروں کا اندازہ ہوجائے کہ انہیں آپ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ پولیس نے تقریباً نو گولیاں چلائیں اور وہ بھی ڈرائیور یا گاڑی کے پہیوں پر نہیں بلکہ صرف مسافروں کی طرف۔ یہ کینیا پولیس کے اس ورژن سے متصادم ہے کہ یہ غلط شناخت کا معاملہ تھا – کہ ان کا خیال تھا کہ ارشد جس گاڑی میں تھا وہ چوری کی کار تھی، جو مبینہ طور پر اغوا میں ملوث تھی۔ یہ اصول ہے کہ ، گاڑی میں کسی کو یرغمال بناکر لے جائے جانے کی صورت میں پولیس گولی نہیں چلاتی، تاکہ مغوی کو گزند نہ پہنچے۔ اس کے بجائے وہ گاڑی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بقیہ: صفحہ نمبر 6 پر
تیسرا دعویٰ اس سے بھی زیادہ ناقابل فہم ہے، درحقیقت یہ سراسر بکواس ہے — کہ پولیس نے گاڑی سے چلائی گئی گولی کے جواب میں فائرنگ کی ۔
درحقیقت اس قتل کی آزادانہ اور اعلیٰ اختیاراتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ کیا شہباز شریف حکومت کا جوڈیشل کمیشن اسے اور وہ بھی دور دراز میں تحقیقات کرسکے گا؟اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ماضی سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیقات کے بلندبانگ دعووں اور انصاف کی فراہمی کے وعدوں کے باوجود پاکستان میں زیادہ تر ہائی پروفائل قتل اسرار کے پردے میں لپٹے رہے ہیں۔
20 ستمبر کو، اپنی المناک موت سے چند ہفتے قبل، ارشد شریف نے بول نیوز میں سینئر اینکر پرسن کے طور پر شامل ہونے کا معاہدہ کیا تھا۔ دستخط کرنے سے قبل ، انہوں نے اپنے معاہدے کے اوپری حصے میں ایک سطر شامل کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ” ذاتی سیکورٹی خدشات اور خطرات کی نشاندہی سے مشروط، جوائننگ کی تاریخ ایک ماہ کے بعد باہمی رضامندی سے طے کی جائے گی۔”
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کو لاحق خطرے سے آگاہ تھے۔
چونکہ میڈیا برادری اور ارشد شریف کے اہل خانہ، دوست اور مداح ان کی بے وقت موت پر سوگ منا رہے ہیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ ان کے جیسے پروفائل اور پس منظر کے حامل صحافی کو پاکستان چھوڑنے پر کیوں مجبور کیا گیا؟ یہ ستم ظریفی ہے کہ ان کے قتل کے بعد حکومت اور ادارے صحافت کے میدان میں ارشد کی خدمات اور ان کی دلیری، جرأت، دیانت اور راستبازی کو اس قدر شاندار خراج تحسین پیش کر رہے ہیں- غالباً اس کی وجہ وہی ہے جو ان کی تقدیر میں لکھا تھا۔
ارشد شریف کو اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق بات کرنے اور بے خوفی سے بہت سے پاکستانیوں کی ترجمانی کرنے کی سزا دی گئی جو کرپشن، اشرافیہ کی طاقت اور خاندانی سیاست کے خلاف ہیں۔ ارشد شریف اپنے پیشے کے اعتبار سے اور اپنی موت کی نوعیت دونوں لحاظ سے ایک قدآور صحافی بن گئے ہیں، جن کے افعال اور الفاظ آنے والے دنوں میں گونجتے رہیں گے۔ ہمارے جیسے سیاسی طور پر منقسم ملک میں، بہت سے پاکستانی قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لیے، ارشد شریف جرات اور دفاع کی علامت بنے رہیں گے۔ ان کے پاس سمجھوتہ کرنے کے تمام مواقع تھے، شاید کسی بھی قیمت پر، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے واضح طور پر اپنی عزت کی زیادہ قدر کی – یہاں تک کہ اگر اس کا مطلب اپنی زندگی کو خطرات کی زد پر لانا تھا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News