عمران خان جہاں عوامی جذبات کے رتھ پر سوار ہیں، وہیں بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ابھرتے ہوئے منظر نامے کو کس طرح سنبھالتی ہے
اب عمران خان بمقابلہ باقی سب ہیں۔
جیسا کہ سابق وزیر اعظم دسیوں ہزار حامیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں، آخری لمحات کے سیاسی تصفیے کی تمام امیدیں “سرکاری طور پر” ختم ہو گئی ہیں- کم از کم ابھی کے لیے۔
اس بار عمران خان حکمران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی مشترکہ طاقت اور ایک طرح سے ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہیں۔ بظاہر، تاہم، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر کہ تمام روایتی سیاسی قوتوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز انہیں قبل از وقت عام انتخابات سے انکار کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔
عمران خان کے اپنے بہت بڑے ’لانگ مارچ‘ کا آغاز کرنے سے صرف ایک دن پہلے، فوجی قیادت نے ملک کے جاری سیاسی بحران میں اپنی پوزیشن واضح کر دی۔ ایک بے مثال پریس کانفرنس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم خود ڈی جی انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ، اس کا ادارہ جاتی ردعمل جسے دونوں نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف “یک طرفہ جھوٹ” قرار دیا، دینے کے لیے صحافیوں کے ایک منتخب گروپ کے سامنے پیش ہوئے۔
پریس کانفرنس نے شہباز شریف حکومت کے حوصلے بلند کیے ہوں گے۔ اور یہ پی ٹی آئی کے لیے ایک انتباہ کے طور پر سامنے آئی، جو کہ حال ہی میں ملک کے سیاسی تعطل کا حل تلاش کرنے کے لیے فوجی قیادت کے ساتھ بیک چینل بات چیت میں مصروف تھی۔ تاہم، کوئی 10 دن پہلے، پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے انکشاف کیا کہ “بات چیت ناکام ہو گئی ہے” – یہ حقیقت بول نیوز کے پچھلے شمارے میں ’’ ایک جابرانہ تعطل ‘ کے عنوان سے رپورٹ ہوئی تھی۔
جسے درج ذیل لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ www.bolnews.com /urdu/newspaper /national-nerve /2022/10/694378 اور بعد میں خود عمران خان نے اس کا اعتراف کیا۔
آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے ڈی جیز کی مشترکہ پریس کانفرنس نے عسکری قیادت کا وہ ورژن فراہم کیا جس کے مطابق پی ٹی آئی کے ساتھ بیک چینل مذاکرات پاکستانی سیاست میں ’زہریلے پن‘ کو کم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔
جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ میں یہاں اس لیے ہوں کیونکہ میرے ادارے اور ایجنسی کو جھوٹ کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے۔ ’’میں خاموش نہیں رہ سکتا تھا، خاص طور پر جب یک طرفہ جھوٹ کی وجہ سے (ملک میں) فساد کا خطرہ ہو۔‘‘
تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کو پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ عمران خان اور ان کے حامیوں نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر فوجی قیادت کے “غیر جانبدار” یا “غیر سیاسی” موقف کو شریف اور زرداری خاندانوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کے اقتدار میں آنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، جن پر وہ بڑے پیمانے پر کرپشن، خراب طرزحکومت اور بدانتظامی کا الزام لگاتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر، لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارنے کہا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کو حکومت کی تبدیلی کی کارروائی کے طور پر پیش کرنے کے لیے جھوٹ کا پرچار کیا گیا، حالانکہ یہ سیاسی اور آئینی معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ فوج کے ادارے کو سیاسی مداخلت کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے بدنام کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب فوج غیر متحرک رہی تو فوج کی توہین کے لیے “غیر جانبداری اور غیر سیاسی ہونا” جیسے جملے منفی تناظر میں استعمال کیے گئے۔
پریس کانفرنس میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی کہ پاک فوج شہباز شریف حکومت کے ساتھ مکمل طور پر کھڑی ہے اور عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کرانے کے مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
اب جب کہ جنگ ناگزیر نظر آرہی ہے ، پاکستانی سیاست میں تقسیم شدت اختیار کرنے کے لیے تیار ہے جو بہت سے مبصرین کے لیے پہلے ہی بہت زہریلی اور حد سے زیادہ تناؤ کا شکار ہوچکی ہے۔ جب کہ تمام فریق ایک بظاہر حتمی مقابلے کے لیے تیاری کررہے ہیں، سیاسی تعطل کو توڑنے اور درمیانی بنیاد تلاش کرنے کی کوششیں فی الحال کہیں دکھائی نہیں دے رہیں۔
عوامی جذبات بے شک عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں، لیکن تمام مضبوط سیاسی کھلاڑی اور اسٹیبلشمنٹ ان کے مطالبات ماننے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں محاذ آرائی کی سیاست جاری رہے گی، جو ملک کے لیے بری خبر ہے کیونکہ یہ ایسے وقت میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کا متحمل نہیں ہو سکتا جب معیشت ابتر حالت میں ہو۔
عمران خان، جنہیں کبھی ان کے حریف اسٹیبلشمنٹ کا حامی قرار دیتے تھے، اپنے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا جوا کھیل رہے ہیں کیونکہ وہ آہستہ آہستہ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ اسلام آباد پہنچنے تک بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہے تو یہ ان کی شہباز شریف مخالف حکومتی مہم کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوگا۔
اگر حکومت مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر تشدد اور معاملات قیادت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ بھی ہے۔ اگر مارچ ختم ہو بھی جائے تو بھی پاکستانی سیاست میں رسہ کشی جاری رہے گی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر سب کچھ عمران خان کے منصوبے کے مطابق ہوتا ہے اور وہ اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر ہجوم جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا اس سے شہباز شریف کی حکومت گر جائے گی؟ اور اگر حکومت واقعی ختم ہونے پر آگئی تو کیا ہوگا؟ سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں پاکستانی حکومت گرنے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک میں ایک نئی مثال قائم کی جارہی ہے؟
لانگ مارچ کے تمام ممکنہ منظرناموں سے – اس کی کامیابی سے لے کر اس کی ناکامی تک – بڑے ممکنہ خطرات منسلک ہیں۔ پھر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ سویلین اور عسکری قیادت دونوں کے دل و دماغ میں یہ سب سے بڑا سوال ہونا چاہیے۔
کیا اس دھماکہ خیز صورتحال کی شدت میں کمی لانے اور عمران خان اور ان کے پیروکاروں کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوئی اور کوشش ہوگی؟ ہمیشہ ایک امکان باقی رہتا ہے۔ اور اگر کوئی امکان نہیں بھی ہے تو پھر بھی جو طاقتیں ہیں انہیں بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کے لیے ایک امکان پیدا کرنا چاہیے۔
اگر سیاسی اور عسکری قیادت اس سیاسی تعطل کو ختم کرنے میں ناکام رہی تو اس محاذآرائی کے نشانات پاکستانی سیاست میں آنے والے طویل عرصے تک باقی رہیں گے اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو جائے گی۔
عوامی جذبات پہلے ہی اس حکومت کے خلاف ہیں، جس نے احتساب کے قوانین میں متنازع ترامیم کرکے اپنے لیے کوئی اچھا اقدام نہیں کیا، جس کا واحد مقصد چند سیاسی خاندانوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اگر موجودہ سیٹ اپ عام پاکستانیوں میں اپنی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے باوجود اقتدار پر قابض رہتا ہے تو اس سے عوام اور اداروں کے درمیان بھی دوری پیدا ہو جائے گی جنہیں بدعنوانوں اور ان کی بدعنوانی کا تحفظ اور دفاع کرنے والوں کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس لیے اب عمل کرنے اور تعطل کا سیاسی حل تلاش کرنے کا وقت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News