Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سری لنکا کو تاحال محتاط رہنے کی ضرورت

Now Reading:

سری لنکا کو تاحال محتاط رہنے کی ضرورت

یکم  ستمبر 2022ء کو قرضوں میں  ڈوبے سری لنکا نے  عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ  2 اعشاریہ 9  ارب ڈالر  کے 48 ماہ کے  توسیعی فنڈ سہولت کے لیے ابتدائی معاہدہ کیا ہے ، جوبہ مشکل ملک کے بقایا قرضوں کو پورا کرتا ہے اور ملک کی بقا کی فوری ضروریات کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہے۔

بہرحال آئی ایم ایف کی اسٹرکچرل  ایڈجسٹمنٹ کے لیے ملک کو قرضوں کی تنظیم نو کی جانی پہچانی شرائط کو پورا کرنے کی فوری  ضرورت کے  ساتھ سرکاری اداروں کی نجکاری، سماجی تحفظ کے جال میں کمی اور مقامی اقتصادی پالیسی کی امریکہ اور دیگر مغربی مفادات کے ساتھ صف بندی کی  ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس بات کے آثار پہلے ہی موجود ہیں کہ یہ پالیسیاں عام سری لنکا کی فلاح و بہبود اور ملک کی خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہوں گی اور لامحالہ دولت کے مزید تفاوت اور قرضوں کے بحران کو دہرانے کا باعث بنیں گی۔

2023ء سری لنکا کے بجٹ میں ریاستی آمدنی پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ریاستی ملکیت والے اداروں کی نجکاری ہے، جو آئی ایم ایف   کی اسٹرکچرل   ایڈجسٹمنٹ   اور نو لبرل (ایک سیاسی اور معاشی فلسفہ جو آزاد تجارت، ڈی ریگولیشن، عالمگیریت، اور حکومتی اخراجات میں کمی پر زور دے) معاشیات کی بنیادی حکمت عملی ہے۔

2023ء  کے  بجٹ میں کہا گیا  ہےکہ حکومت اس وقت 420 سرکاری اداروں کی دیکھ بھال کر رہی ہے، جس میں سے 52 اداروں کی وجہ سے اسے 86 ارب روپے سے زائد کا نقصان  اٹھانا پڑتا ہے۔وزارت خزانہ میں حال ہی میں ایک یونٹ قائم کیا گیا ہے جو ریاستی ملکیت کے ادارے کی تنظیم نو کے مخصوص کام کے ساتھ ہے۔ابتدائی طور پر سری لنکن ایئر لائنز، سری لنکا ٹیلی کام، کولمبو ہلٹن، واٹرس ایج، کی تنظیم نو کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جب کہ سری لنکا انشورنس کارپوریشن اور اس کے ذیلی اداروں کے ساتھ، جس کی آمدنی کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بنانے اور روپے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

Advertisement

بائیں بازو  اور  قوم پرست بندرانائیکے حکومتوں نے 1950ء کی دہائی کے وسط اور 1970ء کی دہائی کے وسط کے درمیان بہت سے سرکاری ادارے قائم کیے، جن میں سے بہت سے غیر ملکی درآمدات کو ملکی پیداوار سے بدلنے کے لیے متبادل صنعتیں درآمد کرتے ہیں۔1977ء اوپن اکانومی کے متعارف ہونے کے بعد بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری کی گئی تھی، اور اس  کے بعد سے نجکاری ( کمرشلائزیشن)  مسلسل جاری ہے۔ ایک کے  بعد ایک آنے والی حکومتوں نے سرکاری ملکیتی اداروں کو فروخت کر دیا یا  پھر انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں تبدیل کر دیا گیا ۔

سری لنکا میں 55 اسٹریٹجک ریاستی ملکیتی انٹرپرائز، 287 تجارتی مفادات کے ساتھ سرکاری ملکیت کے ادارے اور غیر تجارتی مفادات کے ساتھ 185 سرکاری ملکیت والے ادارے ہیں۔اسٹریٹجک لحاظ سے 55اہم ریاستی ملکیتی انٹرپرائز کا تخمینہ ہے کہ وہ ملک کی لیبر فورس کا تقریباً ایک اعشاریہ 9  فیصد کام کرتے ہیں۔ریاستی شعبے کی کل افرادی قوت کا تخمینہ تقریباً ایک اعشاریہ 4  ملین افراد بنتا ہے، جو ملک کی کل افرادی قوت  کے حساب سے ،  چھ میں سے ایک کے برابر  ہے۔

بہت  سے سری لنکن ،ملازمت کی حفاظت، ریٹائرمنٹ اور دیگر مراعات کے پیش نظر سرکاری شعبے میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ملک میں ایسے خدشات  بھی سامنے آرہے ہیں کہ  نجکاری کے نتیجے میں تنخواہوں میں کمی اور   مراعات  میں کٹوتی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے  یا  چھانٹی  کے بارے میں  فیصلے لیے جائیں ۔اس  کے ساتھ ساتھ  اجارہ داری سے مستفید ہونے والے سرکاری ادارے کی نجکاری کے نتیجے میں’  کارپوریشنز ‘  عوامی فائدے کی بجائے منافع کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔نجی شعبے  کے برعکس، سری لنکا میں بہت سے سرکاری اداروں میں طاقتور ٹریڈ یونینز ہیں، جن میں مختلف ہنر اور پیشہ ورانہ سطح کے کارکن ہیں، جنہوں نے کئی دہائیوں سے مزدوروں کے حقوق اور ملک کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔نجکاری بہت سی ٹریڈ یونینوں، ہڑتالوں اور مزدوروں کی مزاحمت کی دوسری شکلوں کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔

اکتوبر 2022ء میں، سیلون پیٹرولیم کارپوریشن کے کارکنوں نے سیلون پیٹرولیم کارپوریشن کی مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی۔اسی طرح گورنمنٹ پریس پلانٹ کے12 سو   یونین ورکرز نے نومبر 2022ء میں ہڑتال کی، جو نجکاری اور اجرتوں کی عد م فراہمی ،روزگار کےلیے  ناسازگا ر  حالات اور  چھانٹی  کی نذر ہوگئے ۔

سی پی سی کو آئی ایم ایف کی تنظیم نو کے پروگرام کے تحت نجکاری کے لیے نشانہ بنایا گیا ، جو  جزیرے کو تیل کی فراہمی اور توانائی کی حفاظت کا ایک  اہم ادارہ ہے۔لنکا انڈیا آئل کمپنی، چین کی سائنو پیک، پیٹرولیم ڈیولپمنٹ عمان اور شیل نے اس معاہدے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہےکہ نجکاری کے نام پر سیلون پیٹرولیم کارپوریشن کو طاقتور بیرونی ممالک کے سرکاری اداروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔جب کہ لنکا انڈیا آئل کمپنی کی بنیادی کمپنی انڈین آئل کارپوریشن لمیٹڈ ہے جس کی ملکیت ہندوستان کی وزارت پٹرولیم اور قدرتی گیس ہے۔

Advertisement

اسی  طرح سینوپیک گروپ دنیا کا سب سے بڑا آئل ریفائننگ، گیس اور پیٹرو کیمیکل گروپ ہے اور یہ مکمل طور پر چینی ریاست کی ملکیت جب کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ عمان حکومت عمان، رائل ڈچ شیل، ٹوٹل انرجی اور پارٹیکس کی ملکیت ہے۔

نج کاری کے نقصانات:

سری لنکا کو دنیا کے  دیگر ممالک میں نجکاری کے واقعات سے سبق   سیکھنا   چاہیے۔ایمسٹرڈیم میں ٹرانس نیشنل انسٹی ٹیوٹ کی مد د سے2016ء میں  ہونے والی  ایک ریسرچ   مطابق، یورپ میں نجکاری کی صنعت،متوقع آمدنی پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ مسلسل کم قیمتوں کی وجہ سے  صرف منافع بخش فرموں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

اس تحقیق  سے پتہ  چلاہےکہ پرائیویٹائزڈ فرمیں سرکاری فرموں سے زیادہ کارآمد  ثابت نہیں ہورہیں  ،اور نجکاری کے تحت پرتگال، یونان اور اٹلی میں کئی یورپی توانائی کمپنیاں چین کی سرکاری کارپوریشنوں کو فروخت کر دی گئی ہیں۔ اس  ریسرچ  کے بعد یہ بھی  بتایا  گیا  ہےکہ یورپ میں نجکاری نے بدعنوانی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جبکہ  یونان، اٹلی، اسپین، پرتگال اور برطانیہ میں اقربا پروری اور مفادات کے تنازعات کے اکثر واقعات  سامنے آتے رہے ہیں ۔

ہمیں ایسے بڑے سودوں میں مفادات کے حوالے  سے بھی محتاط  رہنا ہوگا جس میں عوامی پیسہ اور فلاح و بہبود شامل ہو۔مثال کے طور پر، مالیاتی اور قانونی مشاورتی فرموں کلفورڈچانس اور لیزارڈ کو  سری لنکا کی حکومت نے آئی ایم ایف  کے قرضوں کی تنظیم نو  کے لیے  رکھا ہوا  ہے۔ٹرانس نیشنل انسٹی ٹیوٹ اسٹڈی نے کلفورڈ چانس کو نجکاری کے مشاورتی قانونی فرموں کے ایک چھوٹے گروپ کے حصے کے طور پر فہرست میں شامل کیا ہے، جس کی سالانہ آمدنی ایک ارب یورو سے زیادہ ہے، جو بحران سے پیدا ہونے والی نجکاری کی نئی لہر سے بھاری منافع کما رہی ہے۔

Advertisement

لازارڈ کو نمبر ایک خودمختار ایڈوائزری فرم اور دنیا کی سب سے بڑی نجکاری ایڈوائزری فرم  ، دونوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔لازارڈ کا آپریشنل عالمی ہیڈکوارٹر نیویارک شہر میں ہے، لیکن کمپنی کو باضابطہ طور پر برمودا میں شامل کیا گیا ہے، جب اس مالیاتی اخلاقیات (کی کمی) کی بات آتی ہے تو  اسے ہمیشہ  خطرے کی  گھنٹی تصور کیا  جاتاہے ۔

پچھلے حکومتی مشاورتی معاہدوں میں، لازارڈ نے نہ صرف اپنی مشاورتی خدمات کی شاخ، بلکہ اپنی اثاثہ جات کے انتظام کی شاخ کو بھی شامل کرکے اپنی نمایاں حیثیت کا فائدہ اٹھایا ہے۔

ریسرچ کے مطابق  اہم ریاستی کمپنیوں کی ابتدائی عوامی پیشکش پر، لازارڈ نے کئی مواقع پر کمپنی کی قیمت کو کم کیا ہے، جس  نے اپنی اثاثہ مینجمنٹ برانچ کو کم قیمتوں پر اسٹاک خریدنے کی اجازت دی ہے جو اسٹاک کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کافی منافع کے لیے فروخت کردی گئی ہے۔

نجکاری کے عمل کے بارے میں مشورہ دینے اور پھر اس مشورے سے فائدہ اٹھانے کا عمل، لازارڈ کے بارے میں اخلاقی سوالات کو جنم دیتا ہے۔پہلے تو قرضوں کے بحران پیدا کرنے کی ذمہ دار پوری عالمی مالیاتی صنعت کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اور پھر قرضوں کے بوجھ تلے دبے ممالک  کی جانب سے  قیمت پر  فائدہ اٹھانے کے منحرف طریقے تلاش  کرنے  کا عمل سامنے آتا ہے ۔

نجکاری پر اتنے سنگین خدشات کے باوجود، اب مقامی اور بین الاقوامی اداکاروں کی طرف سے ایک زبردست دباؤ ہے کہ سری لنکا کے قرضوں اور معاشی بحرانوں کا حل بقیہ سرکاری ادارے کی نجکاری کرنا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عمل میں کچھ منتخب منافع بہت زیادہ ہے۔

اس میں ایک  اہم  پلیئر سری لنکن این جی او، کولمبو میں ایڈوکاٹا انسٹی ٹیوٹ ہے، جو مونٹ پیلرین سوسائٹی اور اٹلس نیٹ ورک اور ان کے نو لبرل ایجنڈے سے وابستہ ہے۔ایڈوکاٹا عوام کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے ایک بڑی مہم کی قیادت کر رہا ہے کہ سرکاری ملکیت کے ادارے کی نجکاری سری لنکا کو حل اور خوشحالی کے لیے دوبارہ ترتیب دینے کا راستہ ہے۔ریاستی ملکیتی اداروں اور اسٹریٹجک اثاثوں کی عظیم سری لنکا فائر سیل(آگ سے تجارتی احاطے کی تباہی کے بعد باقی سامان کی فروخت) جاری ہے، جس میں مقامی اور عالمی مالیاتی اور کارپوریٹ اشرافیہ کی ملی بھگت اور عام لوگوں کے لیے مفلوج ہونے کے لیے بھاری منافع کی توقع ہے۔

Advertisement

زمین کی نجکاری:

اہم ریاستی ملکیت کا وسیلہ زمین بھی خطرے  سے باہر  نہیں  ہے، جیسے کہ سرکاری ملکیتی زمین کو اجناس بنانا سری لنکا میں نجکاری کا ایک بڑا پہلو ہے۔سری لنکا اور پوری دنیا میں نجکاری اور اجناس کی وجہ سے نہ صرف زمین بلکہ پانی بھی  زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے۔یہ ہرگز نئی بات نہیں ۔برطانوی نوآبادیاتی دور سے سری لنکا میں برآمدی پیداوار کے لیے سرکاری اراضی کی نجکاری اور اجناس سازی کا عمل جاری ہے۔

اگرچہ  2002ء میں جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع کیے گئے تازہ ترین نیو امپیریل یو ایس ملینیم کارپوریشن کومپیکٹ ایجنڈے پر سری لنکا نے سرکاری طور پر دستخط نہیں کیے ہیں۔سری لنکا کی ہم عصر حکومتیں درآمدی خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملک کو درپیش غذائی بحران کے باوجود، مقامی خوراک کی پیداوار پر برآمدی پیداوار کو ترجیح دینے کے لیے سرکاری زمین کی نجکاری کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔

اس سلسلے میں  دو انتہائی اہم تجاویز کو بغیر عوامی بحث کے 2023ء کے بجٹ کی تجاویز میں شامل کردیا گیا ہے۔

سب سے پہلے، زرعی برآمدات والی ریاستوں کے لیے زمینوں پر شق  12 اعشاریہ ایک ، جناتا اسٹیٹ ڈیولپمنٹ بورڈ، سری لنکا اسٹیٹ پلانٹیشن کارپوریشن، اور لینڈ ریفارم کمیشن کی زمین کی ایک بڑی مقدار طویل عرصے تک کاشت یا پیداواری طور پر استعمال کیے بغیر رہ گئی ہے۔ اس کے مطابق، ایک پروگرام وضع کیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاروں کو پیداوار اور برآمدات دونوں میں اضافہ کرنے کے لیے ان کا نتیجہ خیز استعمال کر سکیں۔لہٰذا توقع کی جاتی ہے کہ غیر استعمال شدہ یا غیر پیداواری طور پر استعمال شدہ زمینوں کے بڑے پارسلوں کو طویل مدتی بنیادوں پر لیز پر دیا جائے گا تاکہ برآمد کی جانے والی فصلوں کو   اگایا جاسکے۔

Advertisement

دوسری یہ کہ ، سرکاری زمینوں کی ریاستوں کے تصرف سے متعلق 2023ء کے بجٹ کی شق 13 اعشاریہ ایک سرکاری زمینوں کے تصرف سے متعلق سرگرمیاں، ضلعی سیکرٹریوں یا سرکاری ایجنٹوں کے ذریعے ڈویژنل سیکرٹریوں یا اضافی سرکاری ایجنٹوں کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں،اس نوعیت کے  فرائض سری لنکا مہاویلی اتھارٹی اور لینڈ ریفارم کمیشن کو بھی مختص کیے گئے تھے جو کہ بعد کے مرحلے میں خصوصی ضروریات کے لیے قائم کیے گئے تھے، زمینوں کے تصرف سے متعلق سرگرمیوں کے طور پر امتیازی سلوک اور بددیانتی کے واقعات  پیش آتے ہیں ۔

اس لیے  اگلے سال کے دوران ایک پروگرام تیار کیا جائے گا تاکہ تمام سرکاری زمینوں کو تصرف کرنے کے سلسلے میں ابتدائی سرگرمیاں بشمول مذکورہ دونوں اداروں کے تحت صرف ڈویژنل سیکریٹریز کے ذریعے تصرف کی جا سکیں۔

نیشنلسٹ ارکان پارلیمنٹ اور فیڈریشن آف نیشنل آرگنائزیشنز نے ریاستی اراضی کو ڈویژنل سیکرٹریز کے ماتحت کرنے کے اقدام کو زمین پر قبضے کے لیے ایک چال کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اور یہ کہ جان بوجھ کر ریاستی اراضی کی نجکاری کے اقدام کے حتمی اٹل نتائج سامنے  آسکتے ہیں ۔ موجودہ لینڈ ریفارم کمیشن میں اصلاحات کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صرف ڈویژنل سیکرٹریوں کو بااختیار بنانے سے زمین کی متعصبانہ تقسیم کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

یوں  لگتا ہے کہ 2023ء کا بجٹ ملینیم چیلنج کارپوریشن کومپیکٹ کو عملی جامہ پہنائے گا حالانکہ کومپیکٹ کو چیلنج کرنے والے کارکنوں نے جدید دور کے بڑے پیمانے پر زمین پر قبضے، نقل مکانی اور کسانوں کی غریبی کے لیے نو نوآبادیاتی ایجنڈے سے خبردار کیا ہے۔سری لنکن صدر وکرما سنگھے کی طرف سے اہم اراضی اور نجکاری کے دیگر فیصلوں کی قانونی حیثیت پر بہت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ نہ تو ان کے پاس اور نہ ہی ان کی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے پاس عوام سے ایسا کرنے کا مینڈیٹ ہے۔

زمین، بندرگاہیں اور ریاستی ادارے سیاست دانوں کی نہیں بلکہ عوام اور سری لنکا کی آنے والی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔آئی ایم ایف کی طرف سے واضح طور پر عظیم سری لنکا فائر سیل کو آگے بڑھنے کی اجازت دینے سے پہلے متبادل   کے حوالے سے  محتاط اندازمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ: ایشیا ٹائمز

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مشرف علی زیدی عالمی میڈیا کےلئے ترجمان وزیراعظم مقرر، عطا اللہ تارڑ کی تصدیق ، نو ٹیفکیشن جاری
پنجاب اسمبلی کا 34 واں اجلاس کل شروع ہوگا، اہم بلز اور حکومتی امور پر بحث متوقع
لبنان کو اپنے خلاف نیا محاذ نہیں بننے دینگے ، نیتن یاہو کی نئی دھمکی
ریڈ لائن منصوبہ عوام کیلیے وبال جان، پیپلزپارٹی نے کراچی کو تجربہ گاہ بنا دیا، حافظ نعیم الرحمان
صدر زرداری دوحہ میں پاکستان کے سماجی و معاشی عزم کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے
میٹھا خواب کڑوی حقیقت، چینی کی قیمت بے قابو، نرخ 220 روپے فی کلو ہو گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر