Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بجلی کے مسائل حل کرنے کے لیے شمسی توانائی

Now Reading:

بجلی کے مسائل حل کرنے کے لیے شمسی توانائی

10 ہزار میگاواٹ کے سولر اقدام سے 270 ارب روپے کی سالانہ بچت پر غور

رواں سال جون میں بجٹ کا اعلان ہونے کے بعد سے بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کا ایک اہم سبب یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے مہنگے پاور پلانٹس کو شمسی توانائی کے منصوبوں سے تبدیل کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا ہے اور اس ضمن میں وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے اعلان کیا ہے کہ حکومت جلد ہی پہلے مرحلے میں 600 میگاواٹ کے لیے ٹینڈر جاری کرے گی۔

اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کردیا جائے گا اور حکومت سے توقع ہے کہ وہ اس اہم  اقدام کے ساتھ ایک سستے اور ماحول دوست توانائی کے نظام میں تبدیل ہو کر سالانہ اربوں روپے بچائے گی۔

Advertisement

حالیہ برسوں میں شمسی توانائی کی قیمت میں کمی آئی ہے اور یہ اب بہت سے ممالک میں کوئلے یا دیگر رکازی ایندھن سے سستی ہے۔ بڑھتی ہوئی پیداوار، حکومتی زرِ اعانت ، ٹیکسوں میں چھوٹ اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خدشات کی وجہ سے صارفین کے لیے شمسی توانائی کے براہ راست اخراجات میں کافی کمی آئی ہے۔

حکومت نے 10 ہزار میگاواٹ کا فاسٹ ٹریک اقدام شروع کیا ہے جس میں سالانہ 270 ارب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر ایل این جی پاور پلانٹس سے موازنہ کیا جائے تو تقریباً 300 ارب روپے کی بچت ہوگی جب کہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں چھوٹے شمسی پینل لگائے جائیں گے۔

حکومت منصوبوں کے لیے نہ صرف زمین فراہم کرے گی بلکہ بجلی بند نہ ہونے کی ضمانت بھی دے گی۔ سرمایہ کاروں کو تمام درآمدی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں بشمول انکم ٹیکس(ابتدائی 10 سالوں کی آمدنی اور منافع پر) سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ حکومت کی ادائیگی کی گارنٹی کے ساتھ اس منصوبے کے لیے بیرون ملک سے زرمبادلہ کا بندوبست کیے جانے کا امکان ہے۔

سعودی عرب کے اُردو روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزارت توانائی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ 10 ہزار میگاواٹ کا منصوبہ آئندہ دو سے تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ تاہم، 600 میگاواٹ کا منصوبہ چار سے 10 ماہ میں پیداوار کے لیے تیار ہو جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے بہاولپور میں زمین بھی دستیاب ہے۔

حکومت شمسی توانائی کی تنصیب کے لیے چھت کی جگہ بھی فراہم کرے گی اور وینڈر کی طرف سے کم از کم توانائی کی پیداوار کی ضمانت دی جائے گی جب کہ پیدا ہونے والی تمام بجلی حکومت کی ملکیت بن جائے گی۔ لیز ماڈل کے لیے مقررہ سہ ماہی ادائیگیوں کا تعین نیلامی کے ذریعے کیا جائے گا۔

اس منصوبے کی تکمیل سے 10 روپے فی یونٹ کی شرح سے سالانہ 19 ارب یونٹس سے زائد بجلی پیدا ہوگی اور فرنس آئل کے مقابلے میں تقریباً 443 ارب روپے کی سالانہ بچت کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ مزید یہ کہ اگر کول پاور پلانٹس کو بھی سولر انرجی پلانٹس سے بدل دیا جائے تو سالانہ 270 ارب روپے کی بچت کی جاسکے گی۔

Advertisement

دوسرے مرحلے میں 2اعشاریہ 6 لاکھ ایکڑ  سے زائد زرعی صارفین کی سہولت فراہم کرنے والے تمام ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر تبدیل کر کے گرڈ سے اتار دیا جائے گا، جس سے کسانوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔ اس منصوبے کے لیے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فنڈز کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ تیسرے مرحلے میں دور دراز دیہی علاقوں میں 11 کے وی کے 10 ہزار فیڈرز میں سے 1500 فیڈرز کو شمسی توانائی کے منصوبوں سے تبدیل کیا جائے گا۔

ملک میں اب بھی بجلی کی ناکافی پیداور کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پربجلی کی بندش ہورہی ہے۔ شہروں کی صورتحال بھی زائد لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مزید خراب ہوگئی ہے۔ ایسے میں کسانوں کو فصلوں کی نشوونما کے لیے وقت پر اپنے کھیتوں کو پانی دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں کسانوں اور زمینداروں کے لیے شمسی ٹیوب ویل ایک حیرت انگیز خیال ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے جی ڈی پی میں 19اعشاریہ 2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور کُل افرادی قوت کا 38اعشاریہ 5 فیصد کام کرتا ہے۔ 70فیصد سے زائد آبادی اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ کی صورت میں عام لوگوں پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟

منصوبے کے تحت نجی سرمایہ کاری کے ذریعے ملک بھر میں 50، 100 اور 200 میگاواٹ کے سولر پراجیکٹ لگائے جائیں گے، جن سے چھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی لیکن اس کے لیے حکومت کوئی خرچہ برداشت نہیں کرےگی کیوں کہ یہ سو فیصد نجی اقدام ہوگا۔

پاکستان سولر ایسوسی ایشن (PSA) کے تخمینے کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں 2000 میگاواٹ کے سولر سسٹمز درآمد کیے گئے تھے اور نیپرا کے مطابق اس وقت ملک میں 160 میگاواٹ کے سولر سسٹم نیٹ میٹرنگ سے منسلک ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
لبنان کو اپنے خلاف نیا محاذ نہیں بننے دینگے ، نیتن یاہو کی نئی دھمکی
ریڈ لائن منصوبہ عوام کیلیے وبال جان، پیپلزپارٹی نے کراچی کو تجربہ گاہ بنا دیا، حافظ نعیم الرحمان
صدر زرداری دوحہ میں پاکستان کے سماجی و معاشی عزم کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے
میٹھا خواب کڑوی حقیقت، چینی کی قیمت بے قابو، نرخ 220 روپے فی کلو ہو گئے
ماؤس کی طرح کام کرنے والا انوکھا چھلا تیار
شہر قائد دوبارہ بھتہ خوروں کے نرغے میں، لیاری گینگ کے تین کارندے گرفتار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر