ڈاکوؤں کی دہشت کا راج، وزیراعلیٰ سندھ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام
سندھ میں پولیس فورس کی مخدوش حالت اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اس وقت منظرعام پر آئی جب ایک حملے کے نتیجے میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، دو اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اوز) اور دو کانسٹیبل جاں بحق جب کہ تین زخمی ہو گئے۔ اتوار کی صبح ضلع گھوٹکی کے دریا کے قریب علاقے میں پولیس کیمپ پر کم از کم 150 ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں کی لاشیں اٹھا کر لے جانے کے بعد دریائی علاقے کے اندر قتل کا جشن بھی منایا۔ صوبے کے بااثر افراد کی ثالثی کے نتیجے میں لاشیں چند گھنٹوں کے بعد پولیس کو واپس کر دی گئیں۔ لاشیں واپس کرتے ہوئے ڈاکو ثناء اللہ شر نے ایک پیغام میں کہا کہ یہ پولیس پر ہمارا احسان ہے کہ ان کی لاشیں قبضے میں نہیں رکھی گئیں۔
ڈاکو سالتوشر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ڈاکوؤں نے پولیس ٹیم پر حملہ کیا، جسے ماضی میں مبینہ طور پر گھوٹکی پولیس کے ساتھ مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔ ڈاکو ثناء اللہ نے پولیس اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قتل کو سالتوشر کی موت کا بدلہ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں اس نے کہا کہ ایس ایس پی اپنے دفتر میں بیٹھے ہیں لیکن ان میں ہمارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
اگرچہ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ڈاکوؤں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، لیکن اس حقیقت میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اس کے بغیر ڈاکووں کے پاس اتنے جدید اور مہنگے ہتھیاروں کی خریداری کے لیے وسائل کا ہونا ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کے بعد بات کرتے ہوئے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ڈاکووں کو باہر سے اینٹی ایئر کرافٹ گنیں فراہم کی جارہی ہیں۔ جب کہ سندھ پولیس قومی علاقے کے ان خطوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب طور پر لیس نہیں تھی جو ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں اور وہ اس پر جس طرح چاہیں حکومت کرتے ہیں۔
اس طرح گھوٹکی کا خوفناک واقعہ ہمیں بالی ووڈ کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ کے گاؤں رام گڑھ کے بعد کی تکلیف دہ صورت حال کی یاد دلاتا ہے جہاں گاؤں والے ڈاکو گبر سنگھ سے خوفزدہ تھے، جو اس کے مشہور ڈائیلاگ ’جب بچہ رات کو روتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹا سوجا، سوجا نہیں تو گبر سنگھ آ جائے گا‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ نہ صرف گھوٹکی بلکہ پورے سندھ کے عوام اس واقعے سے بے حد خوفزدہ ہیں کیونکہ ان کے محافظ پولیس اہلکاروں کے قتل نے انہیں انتہائی غیر محفوظ بنا دیا۔
گھوٹکی کے واقعے نے سندھ کے لوگوں کو رام گڑھ کے باسیوں کی طرح خوفزدہ کر دیا ہے جو تشدد کے بیابان میں زندگی کو اپنا مقدر ماننے پر مجبور ہو گئے تھے۔ وہ یقینی طور پر جانتے تھے کہ ڈاکو ان کے گاؤں پر تسلط برقرار رکھیں گے، دہشت گردی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری جاری رکھیں گے۔ درحقیقت سندھ کے باسیوں کے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کافی وجوہات بھی ہیں کہ سندھ پولیس فورس کے پاس سندھ کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی عزم اور اس لیے ان کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ طاقت ور ڈاکووں کے مظالم کی زد میں رہیں۔
خاص طور پر گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کے اضلاع میں رہنے والوں کی زندگی رام گڑھ کے باشندوں سے کہیں زیادہ دکھی ہے کیونکہ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ رام گڑھ کے ٹھاکر کے برعکس، ثناء اللہ شر جیسے ڈاکوؤں کے انتہائی مظالم سے بچانے کے لیے سندھ کا چیف ایگزیکٹو صرف کسی شعلے کے جے اور ویرو جیسے مضبوط مردوں کی بھرتی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سکھر پہنچ گئے اور اعتراف کیا کہ اگرچہ سندھ کا کوئی علاقہ نو گو ایریا نہیں ہے تاہم گھوٹکی، کشمور اور شکارپور مشکل علاقے ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا، ’’ہم نے اس بدامنی کے خلاف جنگ شروع کی لیکن پھر بھی گھوٹکی، کشمور اور شکارپور میں کچھ مسائل اب بھی باقی ہیں۔ تاہم ہمارے پولیس اہلکاروں کے حوصلے بلند ہیں اور ان کی مدد سے ہم ڈاکوؤں کا قلع قمع کریں گے۔‘‘ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ جدید آلات اور ہتھیاروں کی خریداری کے لیے 35 لاکھ روپے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
تاہم، سندھ کے شورش زدہ علاقوں کے مکین وزیر اعلیٰ کے اسی پولیس فورس کے ذریعے ڈاکوؤں کے خاتمے کے دعوے کو ماننے سے انکاری ہیں جس کو ڈاکوؤں نے با آسانی نشانہ بنایا ہے۔ مسلسل دہشت گردی نے گھوٹکی، کشمور اور شکارپور کے عوام کے لیے ایک صدمے کی کیفیت پیدا کر دی ہے جسے سندھ کے چیف ایگزیکٹو کے کھوکھلے دعوؤں سے دور نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مقامی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والی رپورٹ کے مطابق 35 کلومیٹر چوڑا اور 230 کلومیٹر لمبا ‘کچا’ علاقہ ایک عرصے سے پولیس کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا ہے کیونکہ یہاں کئی قبائل کے مرد سرگرم ہیں۔ پولیس کے مطابق، یہ ڈاکو اینٹی ایئر کرافٹ بندوقوں سے لیس ہیں اور گھنی جھاڑیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قریب پہنچنے پر فائرنگ کر دیتے ہیں۔
گھنے جنگل اور ندی کی پٹی میں اسنائپرز کا پہنچنا مشکل ہے، یہ کام صرف ایک خصوصی فورس کے لیے ہی ممکن ہے۔ پولیس کو علاقے میں بلٹ پروف کشتیوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک علاقہ تین طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے اور دوسرے میں دس کلومیٹر تک جنگل ہے۔
دریں اثناء اطلاعات کے مطابق آئی جی سندھ پولیس کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس، جس میں ڈی آئی جی سکھر، ڈی آئی جی لاڑکانہ، ڈی پی او رحیم یار خان، سکھر، خیرپور، گھوٹکی، شکارپور اور کندھ کوٹ کے ایس ایس پیز نے شرکت کی، میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچے کے علاقوں میں تین سمتوں سے ایک انسدادِ ڈاکو آپریشن کا آغاز کیا جائے گا جو ڈاکوؤں کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت نے مئی 2021ء میں بھی شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکو گینگ کے خلاف فوجی آپریشن کا منصوبہ بنایا تھا۔ صوبائی وزیر میر شبیر بجارانی نے بھی تصدیق کی کہ فوجی دستے اور رینجرز اہلکار سندھ پولیس کے ساتھ مل کر ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے، آپریشن کا منصوبہ صرف ڈرائنگ بورڈ تک ہی محدود رہا۔
اب جب کہ سندھ پولیس آپریشن شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، کراچی کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو قانون سے بچنے کے لیے دریا کے علاقے، جسے مقامی زبان میں ’کچا‘ کہا جاتا ہے، کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کراچی کے علاقے طارق روڈ پر چار مسلح ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر جیولر کی دکان سے لاکھوں روپے کی مالیت کا سونا اور نقدی لوٹ لی تھی۔ ڈاکو صارفین کے موبائل فون اور پرس بھی چھین کر لے گئے۔ صراف نے دعویٰ کیا کہ اس کی دکان سے 20 لاکھ روپے مالیت کا سونا اور دو لاکھ روپے کی نقدی لوٹ لی گئی۔
اس سے قبل کراچی میں رواں سال کی اب تک کی سب سے بڑی چوری کی واردات ہوئی تھی جب نامعلوم ڈاکو تین تلوار کے قریب واقع ایک جیولری کی دکان سے 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا تقریباً 12 کلو سونا لوٹ کر لے گئے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین نے صوبے میں اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے پر افسوس کا اظہار کیا، تاجروں کے متعدد مقامی گروپوں اور مذہبی و سیاسی جماعتوں نے حملے کے خلاف ہڑتال اور احتجاجی ریلیوں کا اعلان کیا۔
یہ نتیجہ اخذ کر نا بہت آسان ہے کہ انڈس ڈیلٹا سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں کی مجرمانہ سرگرمیوں کی کہانیاں جنہیں عام طور پر سرائیکی علاقے اور بالائی سندھ میں ’کچا‘ کہا جاتا ہے، ہمیشہ گھوٹکی جیسے واقعات کے رونما ہونے پر منظر عام پر آتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا میڈیا علاقے میں ایک نام نہاد ’کلین اپ‘ آپریشن کے دوران پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ’مقابلوں‘ کی خبریں چلاتا ہے۔ آپریشن کی اطلاع کے فوراً بعد وہ کچھ دنوں کے لیے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر جب ان کے جرائم کی کہانیاں دب جاتی ہیں تو یہی ڈاکو مزید طاقت کے ساتھ اپنی کاروائیاں دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ گھوٹکی کا یہ واقعہ بھی سب بھول جائیں گے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News