پاکستان کے لیے معیاری تعلیم کیوں چیلنج بنی ہوئی ہے؟ کچھ نامور ماہرین تعلیم ادبی میلے میں اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اکٹھے بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے تعلیمی نظام کے منتظمین اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
رومانہ حسین، جو ایک آرٹسٹ، ماہر تعلیم اور بچوں کے لیے تحریریں لکھتی ہیں، نے سیشن کی نظامت کی۔ سیاست دان اور ماہر تعلیم شہناز وزیر علی نے پاکستان میں تعلیم کی ابتر صورتحال کو ریاست کی ناکامی اور آئین کے آرٹیکل 25A کی سراسر خلاف ورزی قرار دیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ واقعی تشویش ناک بات ہے کہ آئین کی واضح ہدایات کے باوجود کل بجٹ کا صرف 1اعشاریہ8 فیصد مفت لازمی تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک جیسے ملائیشیا، انڈونیشیا اور یہاں تک کہ بنگلہ دیش میں بھی بجٹ کا تقریباً 6 سے 8 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا،’’کیا یہ بڑی شرم کی بات نہیں ہے؟‘‘
شہناز وزیرعلی نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل 25A پر عمل درآمد میں حکومت کی ناکامی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستان میں اسکول جانے والے 47اعشاریہ5 ملین بچوں میں سے 47 فیصد یعنی تقریباً نصف نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں، جسے آئین کی طرف سے بچوں کو دیے گئے حقوق کی صریح خلاف ورزی کہا جاسکتا ہے۔
شہناز وزیرعلی کا خیال تھا کہ پاکستان میں مروجہ تعلیمی نظام متعدد چیلنجوں کا مرکز ہے جس کا ملک کو اس وقت بہت سے محاذوں پر سامنا ہے جیسے آبادی میں اضافہ، سماجی بدنامی، ثقافتی ممنوعات وغیرہ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ان چیلنجز کی مسلسل گرفت میں رہنا تعلیمی نظام کی ناکامی کی علامت ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کی صورتحال بھی درست نہیں ہے کیونکہ صرف 6 پاکستانی جامعات دنیا کی 1000 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ مزید کہا کہ بدقسمتی سے سندھ کہیں نظر نہیں آرہا۔
عوامی پالیسی کی ماہر اور وزارت تعلیم کی سابق تکنیکی مشیر بیلا رضا کا خیال تھا کہ بچے صرف ان اسباق کو یاد رکھتے ہیں جو ان کے دلوں اور روحوں کو چھوتے ہیں اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسباق میں موسیقی اور سر تال کو شامل کیا جائے۔ انہوںے مزید کہا، ’’مثال کے طور پر، میں اب بھی تقریباً 56 سال پہلے اپنے بچپن میں پڑھی گئی نرسری کی نظمیں دہرا سکتی ہوں۔‘‘
اسکولوں میں موسیقی متعارف کرانے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے، وہ دلیل دیتی ہیں کہ موسیقی طالب علموں کے ذہنوں کو وسعت دینے اور ان کی خود اعتمادی کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ موسیقی ہماری زندگی میں ایک عظیم مقصد کی تکمیل کرتی ہے اور تدریس اور موسیقی کو ملا کر، اساتذہ طلباء کی یادداشت، ارتکاز کے ساتھ ساتھ تعلیمی درجات کو بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔
سینٹ جوزف گرلز کالج کی پرنسپل سسٹر الزبتھ نیامت نے پینل کے مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے اسکولوں میں موسیقی متعارف کرانے کے خیال کی توثیق کی، کم از کم پرائمری سطح پر۔ اپنے خیالات کی تائید کرتے ہوئے اور اپنے بچپن کے دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، ’’ہمیں پہاڑا (ٹیبل) جیسے ‘دو دونی چار’ وغیرہ یاد ہیں، اس عمر میں بھی، اور صرف اس لیے کہ یہ ہمارے بچپن میں ہمیں لے کے ساتھ موسیقی کی ایک شکل میں سکھایا گیا تھا۔‘‘
ایک ماہر تعلیم اور کاروباری شخصیت حسن خان جو کئی نجی اسکول چلاتے ہیں، نے کہا کہ ان کے لیے ہمیشہ سے ہی مخلص اور پرجوش اساتذہ کو تلاش کرنا کافی مشکل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے زیادہ تر، جنہوں نے استاد بننے کے لیے درخواست دی تھی وہ نہ تو اس مضمون سے واقف تھے، جو انہیں پڑھانا تھا اور نہ ہی پڑھانے کے طریقے سے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کوئی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، وہ آخری حربے کے طور پر تدریسی ملازمت کے لیے درخواست دے دیتے ہیں۔ فطری طور پر اسکولوں میں ایسے بیزار اور نا اہل اساتذہ سے معیاری تعلیم کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ برے اساتذہ بہت زیادہ محنت کو ضائع اور بہت سی زندگیوں کو خراب کردیتے ہیں جو شاید توانائی اور خوشی سے بھری ہوتی ہیں۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جدید دنیا میں تدریس کو سب سے خاص اور اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہر ملک کے تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اساتذہ کو بہتر اور دوستانہ انداز میں پڑھانے کے لیے خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔
مزید برآں انہوں نے نشاندہی کی کہ تعلیمی بورڈ میں بدعنوانی اور رائج غلط طریقہ ہائے کار بھی پتہ چلا ہے جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اچھے نمبروں کی تلاش میں، کچھ والدین بورڈ حکام سے رجوع کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی مارک شیٹ تبدیل کرنے کے لیے انہیں رشوت دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’والدین صرف اپنے بچوں کو بہتر کالجوں یا یونیورسٹیوں تک پہنچانے کے لیے اس طرح کی بددیانتی میں ملوث ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے طلبا کو پرانا نصاب پڑھا رہے ہیں جو کہ تعلیمی نظام کے ساتھ مذاق ہے۔ ہم پاکستان میں پرانے نصاب کے ساتھ تعلیمی نظام کو کیسے بہتر کر سکتے ہیں؟ ہم اس معیار کے ساتھ تعلیم کی جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں پاکستان میں معیاری تعلیم کے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے تازہ اور جدید علم اپنانے کی ضرورت ہے جس کا موازنہ غیر ملکی نصاب سے کیا جا سکے۔
ممتاز ماہر نفسیات اور ماہر تعلیم ڈاکٹر فوزیہ خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا معیار اس وقت تک کبھی بہتر نہیں ہو گا جب تک کہ ہم معاشرے کے ایک فرد کے طور پر اس کے لیے کوشش نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مہنگائی، بجلی کی بندش، گیس کی قلت اور اس طرح کے دیگر مسائل کے خلاف احتجاج اور مظاہرے دیکھے ہیں، لیکن میں نے کبھی سڑکوں پر لوگوں کو پست تعلیمی معیار کے خلاف احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔
وہ استدلال کرتی ہیں کہ معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کی خاطر حکومت کو اسکولوں میں قابل اساتذہ کی تقرری کے لیے موثر اقدامات کرنے پر مجبور کرنے کی غرض سے مجموعی طور پر کمیونٹی کی شرکت ایک لازمی امر ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر ہم خاموش تماشائی بن کر جو کچھ ہمارے اسکولوں میں ہو رہا ہے ، وہ دیکھتے رہیں تو ہمیں اپنی تعلیم کے معیار میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ معیارتعلیم کی زوال پذیری اسی طرح جاری رہ سکتی ہے۔‘‘
دوسری طرف، وہ دلیل دیتی ہیں کہ تدریسی طریقہ کار نے پوری دنیا میں انقلابی تبدیلیاں دیکھی ہیں اور بدقسمتی سے نہ تو ہمارا نصاب اور نہ ہی طریقہ تدریس اس کے مطابق بدلا ہے۔ اس طرح ہم ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور اپنے نوجوانوں کو جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناطے انہوں نے اسکولوں کے ماحول کو صحت مند اور خوشگوار بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس حوالے سے انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا، ’’محض کلاس میں جانا بوریت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ہر اسکول میں ان ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کے لیے سہولیات ہونی چاہئیں، جس میں ایک فزیکل انسٹرکٹر، خاص طور پر اسکول میں صحت مند سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔‘‘
یہ تجویز کرتے ہوئے کہ اسکول کی اسمبلی کو ایک نتیجہ خیز تقریب میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا، ’’طلبہ کو مختلف سرگرمیاں انجام دینے کا موقع ملتا ہے جیسے دعا اور قومی ترانہ گانا، خبروں کی سرخیاں پڑھنا، کوئی خیال یا کہانی سنانا اور تقریر کرنا وغیرہ۔ اس طرح وہ اپنے اعتماد کو بڑھا سکتے ہیں اور اسٹیج کے خوف پر قابو پا سکتے ہیں اور بولنے کی مہارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔‘‘
آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد جیوا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جہاز میں سوار ہونے کے فوراً بعد اگر ہمیں معلوم ہو کہ طیارے کے پائلٹ کے پاس سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے فلائنگ لائسنس نہیں ہے تو ہم سب اس پرواز پر جانے سے انکار کر دیں گے۔ اسی طرح ہم اپنے طبی علاج کے لیے کبھی اتائی کے پاس نہیں جائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم یہ جانتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں کہ تدریسی عملہ نااہل ہے۔ تو مسئلہ یہاں ہے۔
یہ واقعی ایک فکر انگیز سیشن تھا۔ شرکاء نے ہمارے تعلیمی نظام کی خامیوں کو بجا طور پر اجاگر کیا، جس میں سرکاری اسکولوں کے نصاب کو از سر نو ترتیب دینا، قابل اساتذہ کو راغب کرنے کے اقدامات، اسکولوں میں صحت مند اور خوشگوار ماحول، غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے کافی سہولیات اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 25A پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کمیونٹی کے ہر فرد کی فعال شرکت شامل ہے۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو ترقی کی کنجی رکھتا ہے، اور پاکستان کو اپنے تمام شہریوں کو یکساں طور پر اچھی تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تنظیمی ڈھانچے کی اصلاح سے لے کر اساتذہ کے انتخاب اور تربیت تک، سرکاری تعلیم کے شعبے کو موثر بننے اور عوام کو معیاری خدمات فراہم کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک قول ہے کہ ’’تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیم میں مطلوبہ ترقی کے بغیر نہ صرف ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔‘‘
بدقسمتی سے، ہم اسے اپنے سوشل میڈیا میں کبھی اجاگر نہیں کرتے۔ اب بھی، پاکستان میں بہت سے متوسط یا زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے ہیں جن کی نجی اداروں کی بلند ٹیوشن فیس کی وجہ سے معیاری تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News