Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

آرمی چیف کی مدت ملازمت سےمتعلق کیس کی سماعت ملتوی

Now Reading:

آرمی چیف کی مدت ملازمت سےمتعلق کیس کی سماعت ملتوی
آرمی چیف

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نےحکومت کو کل تک کیلئےکوئی حل نکالنے کی مہلت دیتے ہوئےکیس کی سماعت صبح 9 بجے تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نےکیس کی سماعت کی ۔

کیس سے متعلق اٹارنی جنرل پاکستان اور آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نےدلائل دیے،سماعت کے دوران عدالت نے دو مرتبہ وقفہ بھی لیا۔

کمرہ عدالت میں سماعت کےآغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے وکالت نامہ جمع کروایا۔

گذشتہ روز ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا،چیف جسٹس

Advertisement

سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس پاکستان جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سےمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ گذشتہ روز ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس کوجواب دیتےہوئےاٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیاجس پرچیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی، اس معاملے پر ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پر ہی سن رہے ہیں۔

اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟چیف جسٹس

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سےسوال کیا کہ کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے ہمیں دکھائیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کے نوٹی فکیشن پر متعدد وزراء کے جواب کا انتظار تھا، چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔

اٹارنی جنرل کےجواب پرچیف جسٹس نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو، آپ نے مدت طے نہیں کی تھی لہٰذا آپ کے سوال کا جواب آج بھی ہاں تصورنہیں کیاجاسکتا۔

Advertisement

اٹارنی جنرل نے کابینہ کے گزشتہ روز کے فیصلوں کے بارے میں دستاویز عدالت میں جمع کرائیں۔

اس موقع پر جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کل رولز میں تبدیلی کے وقت کابینہ کو رولز پربحث کےلیے وقت دیا گیا؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ کابینہ ارکان کو وقت دیا گیا تھا۔

جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو تسلیم کیاگیا،چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں، کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو مان لیا اور یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصیح کی گئی۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں تو تصحیح کیوں کی گئی؟

Advertisement

اٹارنی جنرل نےچیف جسٹس کےریمارکس پرمؤقف اپنایاکہ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں ،توسیع سےمتعلق قانون نہ ہونےکا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف 11 ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے مؤقف پر ریمارکس دیے کہ اگرباقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں، کل جو آپ نے دستاویز دی تھی اس میں 11 ارکان نے’ہاں‘ لکھا ہوا تھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں۔

چیف جسٹس پاکستان کاکہناتھاکہ اب توحکومت اس کارروائی سےآگےنکل چکی ہے،  اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےمکالمہ کیا کہ اگر کابینہ سرکولیشن میں وقت مقرر نہیں تھا تو اس نکتے کو چھوڑ دیں، جو عدالت نے کل غلطیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کرکے ٹھیک کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نےایک بار پھرمؤقف اپنایا کہ حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔

کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش

Advertisement

اٹارنی جنرل نےعدالت کوآگاہ کیا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، چیف جسٹس نے  ریمارکس دیتےہوئےکہاکہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کردی۔

کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ازسرنو اور توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا،عدالت تسلی سے سب کو سنےگی، کوئی جلدی نہیں، پہلے یہ سوال اٹھایا نہیں گیا، اب اٹھا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیاجائےگا، ماضی میں پانچ 6 جرنیل خود کو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے، تعیناتی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل کے مؤقف کے بعدجسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئےکہاکہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنےعرصے کے لیے تعینات ہوتے ہیں؟ کیا آرمی چیف حاضرسروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائرڈ جنرل بھی، قواعد کو دیکھنا ضروری ہے، 243 تو مراعات اور دیگر معاملات سے متعلق ہے۔

عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرے پاس ترمیمی مسودہ ابھی ابھی آیا ہے، اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیال نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے، آرٹیکل 255 ان لوگوں کے لیے ہے جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوگئے، اس آرٹیکل کے تحت ان کو واپس بلایا جاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مدت ملازمت 3 سال کے لیے ہے، 3 سال کے بعد کیا ہوگا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ 3 سال تو نوٹی فکیشن میں لکھا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کل کے نوٹی فکیشن میں 3 سال کی مدت کیسے لکھی گئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسےاب دیکھیں گےبھی ، جنرل چارپانچ مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں، یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل 4 سال بعد ریٹائر ہوتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں ہے، اس پراٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جی بالکل رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرمی چیف کی تقرری کا نوٹی فکیشن ریکارڈ پر موجود ہے؟ جو نوٹی فکیشن آرمی چیف کا جاری ہوا تھا وہ بتائیں کیا کہتا ہے، اگرریٹائرمنٹ سے 2 دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہو توکیا وہ جاری رکھے گا، 3 سال کی مدت ہوتی ہے تو وہ کہاں ہے؟ عدالت کے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا تعین کہیں نہیں۔

Advertisement

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سب کو خاموشی سے سنیں گے، بہت سارے رولز خاموش ہیں، کچھ روایتیں بن گئی ہیں، ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔

چیف جسٹس نےاپنےریمارکس میں مزیداٹارنی جنرل کو کہا کہ  نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں،  آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قمرجاوید باجوہ کی تعیناتی کا پہلا نوٹی فکیشن کیا کہتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے، یہ معاملہ دوبارہ تعیناتی کا ہے، 1948 سے لے کر ابھی تک تقرریاں ایسے ہی ہوئیں ہیں۔

چیف جسٹس کاکہناتھاکہ رولز میں ریٹائرمنٹ اورڈسچارج کا ذکر ہے، جب مدت مکمل ہوجائے تو پھر نارمل ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل درمیان میں بول پڑے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےدوران سماعت کہاکہ ایک بندہ ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ چکا تو اس کی ریٹائرمنٹ کومعطل کیا جاسکتا ہے، اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔

Advertisement

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کےریمارکس پر اٹارنی جنرل نےموقف دیتے ہوئےکہا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں، اس پر جسٹس منصور نےدرمیان میں سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کہنا چاہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی؟ مدت پوری ہونے پر محض غیر متعلقہ قاعدے پر توسیع ہوسکتی ہے، یہ تو بہت عجیب سی بات ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظرمیں تویہ کہ انگریز نے جو رولزبنایا تھا وہ ایک اسکیم کے تحت تھا، آپ نےجو ترمیم کی ہیں وہ آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں،  اس پر اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ وفاقی حکومتی افسران سے متعلق رولز بنائے ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مزیدمکالمہ کیا کہ ابھی تک ہمیں یہ اسکیم ہی سمجھ نہیں آئی کہ کن رولز کے تحت توسیع کی گئی،دیکھتے ہیں یہ بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس ہی سمجھ رہے ہیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


2 کومنٹس اس آرٹیکل پر
Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم کی ہدایت پر قطر سے9سال قبل معاہدے کی دوبارہ منظوری
پنجاب میں کسان کی مشکلات کم نہ ہو سکیں, اراکین اسمبلی بھی ایوان میں چیخ اٹھے
 وزیراعظم کی ہدایت پر صوبوں کوزیادہ گندم خریداری کیلئےخط لکھا ہے، رانا تنویر حسین
مشیراطلاعات بیرسٹرسیف کافیصل کریم کنڈی کےبیان پرردعمل
ننکانہ صاحب میں وقف املاک پرغیرقانونی تعمیرات سےمتعلق توجہ دلاؤ نوٹس
اظہار الحسن نے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل نہ ہونے کا مسئلہ اٹھا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر