11 ستمبر 2012 پاکستان کے لیے انتہائی خوفناک دن ثابت ہوا جب ڈھائی سو خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔
تفصیلات کے مطابق 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع فیکٹری میں آگ لگنے سے 259 افراد زندہ جل گئے تھے۔
12 ستمبر 2012 کو فیکٹری مالکان کے خلاف ہی مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
کیس کی شروعات سے انجام تک کئی موڑ آئے۔سانحہ بلدیہ کیس میں آٹھ سال میں 171 سماعتیں ہوئیں۔
14 ستمبر2014 کو فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائلہ، ارشد بھائلہ اور راشد بھائلہ نے سندھ ہائیکورٹ سے ضمانت حاصل کی اور دبئی چلےگئے۔
عوامی دباؤ بڑھا تو سندھ حکومت نےسندھ ہائیکورٹ کےسابق جج زاہد قربان کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹریبونل قائم کرديا۔ تحقیقاتی ٹربیونل نے واقعے کو شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دے ديا۔
آگ لگانے کی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا بھتہ تھا،اس واقعے کا بھانڈا اُس وقت پھوٹا جب ایم کیو ایم کارکن رضوان قریشی کے خلاف تفتیشی رپورٹ 7 فروری 2015 کو عدالت میں جمع کی گئی ۔
تفتیشی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بلديہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
23 فروری 2016 کو ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی نے بھی یہی رپورٹ دی اور مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی بھی سفارش کردی۔
11 مارچ 2017 کو مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرديا گیا۔
19 ستمبر 2019 کو مقدمہ میں اس وقت اہم موڑ آيا جب فیکٹری مالک ارشد بھائلہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ريکارڈ کرایا۔
نومبر 2019 میں استغاثہ کی جانب سے شواہد مکمل ہوگئے، عدالت نے چار سو گواہوں کے بیانات ريکارڈ کیے۔
3 فروری 2020 کو فریقین کے وکلا کے حتمی دلائل کا آغاز ہوا جو رواں ماہ 2 ستمبر کو دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 17 ستمبر کو سنایا جانا تھا تاہم عدالت نے فیصلہ سنائے بغیرسماعت 22 ستمبر تک مؤخر کردی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News