اسلام آباد: قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حکومتی رکن بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا۔
اپوزیشن کی جانب سے الیکشن ترمیمی بل کے خلاف ایوان میں شدید نعرے بازی کی گئی جبکہ اسپیکر نے سنی اتحاد کونسل کے رکن علی محمد خان کو ترامیم پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
اجلاس کے دوران علی محمد خان اور صبغت اللہ نے ترمیم پیش کیں، جس کے بعد وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی ترامیم کی مخالفت کردی۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقصد کے لیے لایا گیا، علی محمد خان
سنی اتحاد کونسل کے رکن علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کو کمیٹی میں بحث کے لیے بھجوایا جائے، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقصد کے لیے لایا گیا، میں پارلیمنٹ افیئرز کمیٹی کا ممبر ہوں، ان سے بحث ومباحثہ کیا، کیا پاکستان کی پارلیمان کایہ کام ہے۔
صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ یہ بل آئین اور سپریم کورٹ پر حملہ ہے، یہ بل قائمہ کمیٹی میں اکثریت کی بنیاد پر بلڈوز کرکے منظور کیا گیا، یہ بل دوبارہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے، یہ بل جمہوریت پر حملہ ہے، یہ پارلیمان اور عدلیہ کو آمنے سامنے لائے گا۔
اسپیکر نے صاحبزادہ صبغت اللہ کی ترمیم پر رائے لے کر ترمیم مسترد کردی۔
ہم اس بل کو عدالت میں چیلنج کریں گے، اعظم نذیر تارڑ
وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن کی بدنیتی سے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے بھی الیکشن کمیشن نے محروم کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن نے اس کے فیصلے کی غلط تشریح کی، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو غیر موثر کرنے کے لئے حکومت پارلیمان کے ذریعے عدلیہ پر حملہ آور ہورہی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ قانون سازی کرلیں ہم اس بل کو عدالت میں چیلنج کریں گے، اللہ کے ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر کہتا ہوں کہ یہ قانون سازی آئین کے مطابق ہے یہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان ہیں حلف نامے دے چکے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ آپ کا وکیل سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کے لئے مخصوص نشستیں مانگ رہے تھے، آئین کے مطابق جس جماعت نے الیکشن نہیں لڑا مخصوص سیٹیں اسے نہیں دی جاسکتیں، پارلیمان ماضی سے قانون کے اطلاق کا قانون منظور کرسکتی ہے۔
دوران اجلاس قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے اپوزیشن کی ترامیم مسترد کردیں، جس کے بعد اپوزیشن ارکان اسپیکر ڈائس کے سامنے آ گئے، اپوزیشن ارکان نے “بل نامنظور”، “عدلیہ اور جمہوریت پر حملہ نامنظور” اور حکومت مخالف نعرے بھی لگائے۔
حکومتی رکن بلال اظہر کیانی نے کہا کہ اگر کوئی رکن آراو کے سامنے بیان حلفی دے کہ وہ کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے تو اسی کو مانا جائے گا، مخصوص سیٹیں صرف اسی جماعت کو دی جائیں گی جس نے الیکشن لڑا ہوگا۔
بعدازاں قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 دوسری ترمیم بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔
فاروق ستار ایوان سے واک آؤٹ
ایم کیو ایم رکن ڈاکٹر فاروق ستار ایوان سے واک آؤٹ کرگئے، انکا کہنا تھا کہ مجھے الیکشن ایکٹ پر بولنے نہیں دیا گیا ایوان کو بلڈوز کیا گیا ہے۔
حکومتی ارکان ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور دیگر نے ڈاکٹر فاروق ستار کو منانے کی کوشش کی لیکن فاروق ستار ایوان سے چلے گئے۔
پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کیخلاف قانون کثرت رائے سے منظور
قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف قانون کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
بل کے متن میں کہا گیا کہ کسی رکن کا کسی جماعت سے وابستگی کا دیا گیا بیان حلفی ہی فائنل ہوگا اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، مخصوص نشستیں صرف اسی جماعت کو ملیں گی جس نے الیکشن لڑا ہوگا۔
بھارتی آئین میں ترمیم سے متعلق قرارداد منظور
قومی اسمبلی نے پانچ اگست 2019 کے اٹھائے گئے بھارتی غیر قانونی اقدامات کی قراداد بھی منظور کرلی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ اس دن کو پاکستان یوم استحصال کشمیر کے طور پر مناتا ہے، تنازعہ جموں کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تاحال موجود ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔
قرارداد کے مطابق ایوان کشمیر کی غیر متزلزل سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، ایوان لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے اور بھارتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کو مسترد کرتا ہے۔
یوم استحصال کشمیر کے حوالے قرارداد منظور
قومی اسمبلی نے یوم استحصال کشمیر کے حوالے بھی قرارداد منظور کرلی، جو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام نے پیش کی تھی۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان مقبوضہ کشمیر پر پانچ اگست کے جابرانہ قبضے کی شدید مذمت کرتا ہے۔
دوسری جانب محمود خان اچکزئی نے قرارداد کی مخالفت کردی جبکہ اسپیکر ایاز صادق نے انہیں کشمیر سے متعلق بولنے کی اجازت نہ دینے پر قرارداد کی مخالفت کردی، جس کے بعد محمود خان اچکزئی نے اسپیکر ایاز صادق کو حوالدار قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News