
بول نیوز کے پروگرام بیوپار میں سینئر اینکر پرسن ارباب جہانگیر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کنوینر آباد گوادر چیپٹر عفان قریشی کا کہنا تھا کہ گوادر کو دبئی بنانے کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد بے حد ضروری ہے۔
گوادر پورٹ کی آپریشنلائز گوادر شہر کو ترقی دینے کی بنیاد ہے، وزیر اعظم نے اس میں اپنی خصوصی دلچسپی ظاہر کی ہے، گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اس حوالے سے اہم میٹنگز بھی ہوئی ہیں۔
وزیر اعظم نے احسن اقبال کے ساتھ ملکر ایک پیغام بھی جاری کیا، گوادر پورٹ کو جلد از جلد فعال کیا جائے، اس حوالے سے وزیر اعظم نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ حکومت اپنی 50 فی صد تجارتی سرگرمیاں گوادر پورٹ سے کی جائیں گی۔
گوادر پورٹ کو فعال بنانے میں جو ابتدائی مشکلات ہیں انہیں غور سے سمجھنا ہو گا، سب سے پہلے تو گوادر پورٹ کو ملک بھر کے ساتھ سڑکوں کے ذریعے ملانا بے حد ضروری ہے۔
اس وقت کوسٹل ہائی وے اور آر سی ڈی شاہراہ موجود ہے، لیکن ہیوی ٹریفک کے بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے، اس کے لیے ان شاہراہوں کو بڑی اور ہیوی ٹرالرز کے لیے اپ گریڈ کرنا ہو گا۔
امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو جو سہولیات کراچی پورٹ سے ملتی ہے کیا گوادر پورٹ بھی وہی سہولیات انہیں دے گا، کیونکہ گودار پورٹ سے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں ٹرانسپورٹ چارجز بہت اہم ہیں۔
کراچی سے گوادر کا فاصلہ تقریباً 6 سو کلومیٹر کا ہے، اس لیے ہمیں گوادر پورٹ کو فعال بنانے کے لیے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو ترغیب دینے کے لیے کچھ اضافی سہولیات دینی ہوں گی۔
گوادر کو ایئرپورٹ کی ضرورت تھی جو کہ الحمداللہ پوری ہو چکی ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹریفک کے لیے ایئرپورٹ پر نجی اور ملکی ایئرلائنز کی فلائٹ آپریشن ممکن بنایا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب گوادر پلان بنایا گیا اور 2020 میں اسے حتمی شکل دی گئی تو اس میں باقاعدہ گوادر اسپیشل ڈسٹرکٹ (جی ایس ڈی) کے نام سے ایک چیپٹر رکھا گیا۔
2023 میں گوادر کو صوبائی حکومت نے ٹیکس فری ڈیکلیئر کر دیا تھا، لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
2007 میں ایک سلوگن پیش کیا گیا تھا کہ گودار کو دبئی بنانے جا رہے ہیں، اگر دبئی نے ہمارے سامنے ترقی کی ہے تو وہاں سرمایہ کاروں کو وہاں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کی صورت میں مراعات ملی، اسی طرح ایران کی بندرگاہ بندر عباس پر بھی ٹیکس کی مد میں چھوٹ موجود ہے جس سے ایران فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اسی لیے اگر وفاقی حکومت کو گوادر میں ٹریفک کو بڑھانا ہے اور انویسٹرز کو لانا ہے تو پھر لامحالہ ٹیکس میں چھوٹ دینی ہو گی۔
گوادر میں تقریباً 22 سو ایکٹر پر محیط رقبے پر فری زون موجود ہے جس کو عام لفظوں میں چائنیز فری زون کہا جاتا ہے، جس میں سرمایہ کاروں نے 45 انڈسٹریز لگانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور 3 انڈسٹریز لگ چکی ہیں۔
اس فری زون سے باہر بہت بڑا علاقہ موجود ہے جس میں پاکستانی اور خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں، لیکن ٹیکسز کے حوالے سے سرمایہ کار محتاط نظر آتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جیونی سے لے کر کے ٹی بندر تک خوبصورت ساحل موجود ہے مگر ہم اس سے ابھی تک ایک فی صد بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔
ہم نے وفاقی اور صوبائی سطح کی ہر میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کی ہیں لیکن سنوائی کے باوجود بدقسمتی سے ان تجاویز پر عملدرآمد نہیں ہوتا، ہم اس وقت معاشی بحران سے گزر رہے ہیں حکومت کو صرف ایک منظم پالیسی دینی ہے اور سرمایہ کاروں کو آ کر اپنا سرمایہ لگانا ہے جس کا فائدہ معاشی طور پر پاکستان کو ہی ہو گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News