
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟ بھارت یکطرفہ ختم نہیں کرسکتا!
اسلام آباد : بھارت نے پہلگام حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے سوچے سمجھے منصوبے پر عملدرآمد عجلت میں شروع کردیا حالانکہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کرسکتا اس کے تاریخی پس منظر پرایک نظر ڈالنا ضروری ہے کہ آخرسندھ طاس معاہدہ آخر ہے کیا؟۔
19ستمبر 1960 کوپاکستان کے سابق صدرجنرل ایوب خان ، اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے درمیان صدر سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا تعمیری منصوبہ شروع ہواتھا۔
اس معاہدے کے مطابق منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ 5 بیراجوں، ایک سائفن اور 8 الحاقی نہریں بنائی گئی تھیں۔
مغربی دریاں سندھ ،جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان اور مشرقی دریایوں روای، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر بھارت کا حق تسلیم کیاگیاتھاجس کے بدلے میں بھارت نے پاکستان کو62 لاکھ پونڈ ادا کیے تھے جواس وقت 125 میٹرک ٹن سونے کے برابر تھے ۔
منصوبے کی تکیمل کے لئے ورلڈ بینک کے علاوہ برطانیہ،امریکا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور مغربی مغربی جرمنی نے بھی فنڈنگ کی تھی ۔
سندھ طاس معاہدے پر 1954 میں ہی ورلڈبینک نے منظوری دی تھی اس وقت پاکستان اپنے حصے کا پانی بھارت کو دینے کے لئے تیار نہ تھا مگر ذوالفقار بھٹو شہید کی کوششوں سے یہ معاہدہ عمل میں آیا۔
اب بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا،اس معاہدے میں دیگر عالمی شراکت دار بھی شامل ہیں اس لئے بھارت یہ معاہدہ یکطرفہ ختم نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News