پاکستان ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ کا آغاز خوشگوار نہ ہوسکا۔ پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی میچ میں گیارہ رنز سے شکست سے ایک مایوسی کی فضاء پیدا ہوگئی ہے۔
زمبابوے کے خلاف آخری میچ میں شکست نے ٹیم مینجمنٹ کو خبردار کردیا تھا لیکن ہیڈ کوچ نے اسے نئے کھلاڑیوں کا ٹیم میں شمولیت کو وجہ قرار دیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ مکمل پاکستان ٹیم نہیں تھی ،ان کی خوش فہمی تھی کہ ٹیم بہت مضبوط ہے۔ ساری خوش فہمی منگل کی شام غلط فہمی میں تبدیل ہوگئی۔
پاکستان ٹیم جب ڈربن پہنچی تو ٹیم کے کپتان محمد رضوان نے فخریہ اندازمیں کہا تھا کہ اب ٹیم مکمل ہوچکی ہے اور ہم یکطرفہ طور پر سیریز جیت لیں گے۔
تمام کرکٹ پنڈتوں کے خیال میں بھی یہ ممکن تھا کیونکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم ان دنوں تشکیل نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور متعدد تجربہ کار کھلاڑی ٹیم چھوڑ چکے ہیں جبکہ نئے کھلاڑی اپنا کیرئیر شروع کررہے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان نے اپنی پوری قوت ڈربن میچ میں جھونک دی بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی بھی پہنچ گئے جبکہ محمد رضوان جو زمبابوے کے خلاف سیریز میں آرام کررہے تھے ،انہوں نے بھی دوبارہ قیادت سنبھال لی۔
پاکستان نے حیرت انگیز طور پر سلمان علی آغا کو ڈراپ کردیا۔ ان کی جگہ طیب طاہر کو موقع دیا حالانکہ سلمان علی آغا نائب کپتان بھی ہیں اور زمبابوے کے دورے میں کپتانی کررہے تھے۔ اگر پاکستان کو بیٹنگ مضبوط کرنا تھی تو عرفان خان نیازی کی جگہ سلمان کھیل سکتے تھے۔ سلمان کی بولنگ کی شدت سے کمی محسوس ہوئی جب بائیں ہاتھ کے ڈیوڈ ملر پاکستانی بولنگ کی دھلائی کررہے تھے۔
ڈیوڈ ملر اور محمد رضوان کی اننگز:
دونوں طرف سے ایک ایک بڑی اننگز کھیلی گئی۔ جنوبی افریقہ کے 183 کے مجموعی اسکور میں سب سے بڑا ہاتھ ڈیوڈ ملر کا تھا جن کی 82 رنز کی اننگز نے پاکستانی بولنگ کا اثر زائل کردیا جو جلدی جلدی وکٹیں لے کر قائم کیا تھا۔
ابرار احمد اور شاہین شاہ آفریدی نے پاور پلے میں تین ابتدائی بلے باز واپس پویلین بھیج کر دباؤ ڈال دیا تھا اور ایسالگتا تھا کہ جنوبی افریقی ٹیم بڑا اسکور نہیں کرسکے گی لیکن ڈیوڈ ملر نے شاندار اننگز کھیلی اور کھیل کا نقشہ بدل دیا۔ ان کی محنت کو چار چاند آخری اوورز میں جارج لنڈے کے 48 رنز لگاگئے۔ ان کی اننگز نے میچ کو فائٹنگ سے وننگ کی طرف پہنچادیا۔ 183 رنز پاکستانی بیٹنگ کو پہاڑ نظر آرہے تھے۔
جوابی اننگز میں پاکستانی بیٹنگ اپنے پرانے رنگ پر آگئی۔ محمد رضوان اگرچہ اوپنر تھے اور انہیں پاور پلے میں فائدہ اٹھانا چاہئیے تھا لیکن بابر اعظم کے صفر پر آؤٹ ہونے نے انہیں محتاط کردیا۔ رضوان نے بلاشبہ شاندار اننگزکھیلی لیکن بے سود رہی۔ وہ 74 رنز تو کرگئے لیکن رنز کی رفتار نہ بڑھاسکے۔ پھر ان کا ساتھ بھی صائم ایوب کے سوا کسی نے نہیں دیا۔
صائم نے 15 گیندوں میں 31 رنز بناکر احساس دلایا کہ وہ حقیقی اوپنر ہیں لیکن بابر اعظم کی وجہ سے وہ ون ڈاؤن کھیل رہے ہیں۔
پاکستان کی بقیہ بیٹنگ عثمان خان،طیب طاہر اور عرفان خان طفل مکتب نظر آئے۔ کسی نے نہ جم کر بیٹنگ کی اور نہ ہدف تک پہنچنے کی جدوجہد۔
جنوبی افریقہ کے چھپے رستم:
اگر جنوبی افریقہ کی جیت کا سہرا ڈیوڈ ملر کی بیٹنگ اور کپتان ہنری کلاسن کی کپتانی پر ہے تو جارج لنڈے، کا بایومزی پیٹر اور اوٹنائل بارٹمین کی بولنگ پر بھی ہے ،تینوں نے متاثر کن بولنگ کی۔
جارج نے ایک اوور میں تین وکٹ لے کر ہیٹ ٹرک کر لی تھی لیکن تیسری وکٹ ڈی آر ایس کے ریویو کے باعث واپس کرنا پڑگئی۔ مگر ان کی اسپن بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچادیا۔
23 سالہ نوجوان لیگ اسپنر پیٹر نے بھی زبردست بولنگ کی اور اسکور روکے رکھا جبکہ فاسٹ بولر بارٹمین نے رفتار میں کمی بیشی کرکے پاکستانی بلے بازوں کو بڑے شاٹ لگانے سے محروم رکھا۔ یوں جنوبی افریقہ کا بولنگ اٹیک چھپا رستم ثابت ہوا۔
جنوبی افریقہ نے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کو 11 رنز سے شکست دے تین میچوں پر مشتمل سیریز میں ایک میچ کی سبقت حاصل کرلی ہے لیکن ڈربن کے میچ نے پاکستان ٹیم کی کمزوریاں عیاں کردی ہیں۔
پاکستانی ٹیم پاور پلے کا استعمال نہیں جانتی جبکہ ٹیم میں کوئی فنشر نہیں ہے۔ مڈل آرڈر کی زبوں حآلی کا حال یہ ہے کہ ٹیل اینڈر شاہین آفریدی چھٹے نمبر پر کھیلنے آگئے اور کچھ کر بھی نہ سکے۔
سنچورین میں جمعہ کو دوسرا میچ سیریز کا فیصلہ بھی کرسکتا ہے اور سیریز کو متوازن بھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News