ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے سوشل میڈیا کو جمہوریت کو درپیش خطروں میں سے ایک خطرہ قرار دے دیا۔
اردوان کی حکومت نے منصوبہ بنایا ہے کہ انٹرنیٹ پر جعلی خبریں اور غلط معلومات پھیلانے کو مجرمانہ قرار دینے کے متعلق قانون سازی کی جائے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ پیش کی گئی تبدیلیاں آزادی اظہار کو محدود کریں گی۔
صدر اردوان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ سوشل میڈیا جسے پہلے آزادی کا ایک نشان قرار دیا گیا تھا اب وہ آج کی جمہوریت کو در پیش خطروں میں سے ایک بن گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہم اپنے لوگوں، بالخصوص ہمارے معاشرے کے کمزور حصوں کو، جھوٹ اور غلط خبروں سے ان کے حق کی خلاف ورزی کیے بغیر بچانا چاہتے ہیں۔
ترکی نے گزشتہ برس ایک قانون منظور کیا تھا جس کے مطابق وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جن کے 10 لاکھ سے زائد صارفین ہیں انہیں اپنا قانونی نمائدہ رکھنا ہوگا اور ملک میں ڈیٹا اسٹور کرنا ہوگا۔
بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں، بشمول فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر نے اس کے بعد سے ترکی میں اپنے دفتر کھول لیے ہیں۔
نئی قانون سازی کے مطابق غلط معلومات اور جھوٹی خبر پھیلائے جانے کو جرم تصور کیا جائے اور اس پر پانچ سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہوگی۔ ایک سوشل میڈیا ریگولیٹر بھی قائم کیا جائے گا۔
ترکی کی بڑی میڈیا کمپنیاں حکومت کے تحت ہیں۔
فریڈم ہاؤسز فریڈم کی رپورٹ کے مطابق ترکی آزاد نہیں ہے کیوں کہ وہاں حکومت کے خلاف مواد کو ہٹا دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر ’قابلِ اعتراض‘ گفتگو پر لوگوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News