ڈھاکا: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید و سزائے موت سنا دی ہے۔
عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف جاری انسانیت کے خلاف جرائم کے ایک مقدمے کا فیصلہ سنادیا ہے، جو 453 صفحات اور 6 حصوں پر مشتمل ہے۔
عدالتی کارروائی کے آغاز کے ساتھ ہی ڈھاکا سمیت ملک بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر کے مختلف مقامات پر پوزیشنز سنبھال لی ہیں جبکہ عدالت کے باہر بھی بھاری تعداد میں اہلکار تعینات ہیں، تاہم پولیس کے ساتھ ریپڈ ایکشن بٹالین اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کو بھی ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی عدالت نے اپنے جاری کردہ فیصلے میں کہا کہ بنگلہ دیشی قانون کسی بھی شخص کو حبسِ بےجا میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا کرنا قابلِ سزا جرم ہے۔
فیصلے میں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ گزشتہ سال جولائی میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران طاقت کے بےجا استعمال سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔
عدالتی فیصلے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران ماورائے عدالت کارروائیاں کی گئیں اور مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کیا کہ عوامی احتجاج پر حکومتی ردعمل نے ملک بھر میں شدید ہنگامے بھڑکائے، ان ہنگاموں کے دوران بڑی تعداد میں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے، اُس وقت کی قیادت نے مظاہروں کو روکنے کے لیے سخت احکامات جاری کیے۔
عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم کے ایک مقدمے کے فیصلے میں شیخ حسینہ واجد کو مجرم قرار دیا ہے، تاہم سزا کا اعلان ابھی باقی ہے۔
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ شیخ حسینہ کے لیک فون کال عدالتی کارروائی کا حصہ ہے، فون کال کے مطابق مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاون کرنے کا حکم حسینہ واجد نے دیا۔
فیصلے کے مطابق شیخ حسینہ نے اقتدار میں رہنے کے لیے اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کیا، ان کے حکم پر ڈھاکا کی مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ مظاہرین پر طاقت کا بے
جا استعمال کیا گیا، انہوں نے مظاہرین پر مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا بھی حکم دیا، انکو انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب قرار دے دیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ شیخ حسینہ حکومت نے طلبہ مظاہرین کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی، انکے اقدامات نے فسادات کو ہوا دی، ان کے ساتھی چوہدری عبداللہ المامون اور اسد الجمال خان برابر کے شریک ہیں، سابق وزیر اعظم کے حکم پر انسانیت سوز مظالم کیے گئے۔
عدالت کی جانب سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو مفرور قرار دے دیا گیا ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری عبداللہ المامون بھی شریک مجرم میں نامزد ہیں۔
فیصلے کے مطابق اسد الزماں تاحال مفرور ہیں جبکہ مامون زیر حراست اور اعتراف جرم کیا ہے، چوہدری معمون ریاستی گواہ بنے ہوئے ہیں، ٹربیونل نے شیخ حسینہ کو بھارت سے واپس آکر ٹرائل میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، عوامی لیگ سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتی۔
فیصلے کے ممکنہ ردِعمل کے پیش نظر حکومت نے سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت دی ہے جبکہ ڈھاکا میں عدالتوں، سرکاری دفاتر اور اہم عمارتوں کے اطراف غیر معمولی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

