
فرانس میں جاری صدارتی انتخابی مہم میں اسلام پر نکتہ چینی کے رجحان نے کافی زور پکڑ لیا ہے۔ فرانسیسی مسلمان اپنے خلاف ہونے والی بیان بازی پر پریشان ہیں۔
نیشنل ریلی (آر این) کی انتہائی دائیں بازو کی امیدوار میرین لی پین اور خاص طور پر سابق پنڈت ایرک زیمور اکثر اسلام پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور ان کے بیانات کی تائید قدامت پسند دائیں بازو کے عہدیدار اور صدر ایمانوئیل میکرون کے اتحادی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
صدارتی اُمیدوار ایرک زیمور موجودہ صدر میکرون کے خلاف دوسرے راؤنڈ کے رن آف تک پہنچنے کے لیے میرین لی پین اور روایتی دائیں بازو کی امیدوار والیری پیکریس سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے شمالی فرانس کے روبائے قصبے کو جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، افغانستان قرار دیا ہے۔
ایرک زیمور نے فرانس انٹر ریڈیو کو ایک انٹرویو میں کہا کہ فرانسیسی مسلمان فرانسیسی طرز زندگی اپنائیں اور شرعی قوانین کو ملکی قوانین سے برتر نہ سمجھیں۔ اُن کے ایسے بیانات نے فرانسیسی مسلمانوں میں پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ کر دیا ہے۔
1905ء میں فرانس میں چرچ اور ریاست کی باضابطہ تقسیم نے سیکولرازم کو جدید جمہوریہ کی شناخت کا سنگ بنیاد بنایا تھا۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے پر 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں فرانس کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔
فرانس میں 2011ء میں خواتین کے نقاب کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پھر موجودہ حکومت نے 2021ء میں ایک نیا قانون متعارف کرایا تھا جسے صدر میکرون نے اسلامی علیحدگی پسندی روکنے اور ملکی شناخت کے دفاع کے لیے اہم قرار دیا تھا۔
فرانسیسی مسلمان جو ملک کی آبادی کا تقریباً نو فیصد ہیں، حالیہ صدارتی انتخابات کے دوران اسلام مُخالف بیان بازی سے حیران ہیں۔ فرانسیسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی بیان بازی کو معمول بنا لیا گیا ہے جبکہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی حمایت کی جا رہی ہے۔
ممتاز ماہر عمرانیات احمد بوبکر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ فرانسیسی معاشرہ اتنا ہی نسل پرست ہے جتنا کہ اسے سمجھا جاتا ہے، یہ سیاست دان ہی ہیں جو نتائج کا اندازہ لگائے بغیر عوام میں نسل پرستی کا بیج بو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News