لبنان میں پیجر ڈیوائس دھماکوں میں 11 افراد شہید اور ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق لبنان اور شام کے مختلف علاقوں میں حزب اللہ اراکین کے پیجرز میں ایک ساتھ مشتبہ دھماکے ہوئے۔
لبنان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پیجر دھماکوں میں 11 افراد شہید جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے 200 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
روسی میڈیا کے مطابق زخمیوں میں لبنان میں تعینات ایرانی سفیرمجتبیٰ امانی بھی شامل ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
پیجر ڈیوائس کیا ہے؟
بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں امریکی انجینئر کی اس نئی ایجاد ہونے والی اس ڈیوائس کو ابتدائی طور پر ’بیپرز‘ کے نام سے جانا جاتا تھااور اسے ابتدا میں ڈیٹروئٹ پولیس ڈپارٹمنٹ استعمال کرتی تھی۔
اس ڈیوائس کو تجارتی مقاصد کے لیے پہلی مرتبہ 1950 کی دہائی میں تیار کیا گیا اور 1959 میں اسے موٹرولا کمپنی کی جانب سے ’پیجر‘ کا نام دیا گیا۔
یہ تاروں کے بغیر برقیاتی لہروں کے ذریعے پیغام پہنچانے والی ڈیوائس ہے جس کے ذریعے تحریری اور صوتی پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں موبائل فون کی آمد سے قبل تک پیجر دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی ایک معروف ڈیوائس تھی۔
تاہم اب بھی اسے اکثر ممالک میں ایمرجنسی سروس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار استعمال کر رہے ہیں کیونکہ جدید پیجر موبائل فونز کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔
ترک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پیجرجدید ترین نظام پر میسج بھیجتا ہے۔ اس کی ہیکنگ ممکن ہے لیکن اس کیلئےغیرمعمولی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
پیجر ریڈیو فریکوئنسی پرکام کرتےہیں جنہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور پیجر کی باآسانی نگرانی بھی کی جاسکتی ہے۔
اسرائیل نے پیجر ڈیوائس میں دھماکے کیسے کیے؟
لبنان میں دھماکوں میں تباہ ہونے والی پیجر ڈیوائسز کے حوالے سے لبنانی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پیجرز تائیوان کی گولڈ اپولو کمپنی نے سے منگوائے گئے تھے۔
تاہم کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ ڈیوائسز بی اے سی نامی کمپنی نے بنائی ہیں جس کے پاس ہمارے برانڈ کو استعمال کرنے کا لائسنس ہے۔
ایک یورپی عسکری اور سیاسی تجزیہ کار نے عرب میڈیا کو بتایا کہ حزب اللہ کے اراکین پر حملے میں استعمال ہونے والے پیجرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایک قسم کا دھماکا خیز مواد پیجر الیکٹرانک سرکٹ کے اندر نصب کر دیا گیا تھا ۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، اس میں ایک اعلیٰ درجے کی تکنیکی مہارت درکار تھی جس سے یہ واضح ہوتا ہے اس میں ریاستی سطح کی انٹیلیجنس ایجنسی ملوث تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لبنان نے پیجرز کی جو کھیپ منگوائی گئی تھی وہ براہ راست لبنان نہیں آئی، کیوں کہ لبنان کے لیے اس قسم کے آلات حاصل کرنا منع ہے ، اس وجہ سے یہ کھیپ قریب ہی ایک بندرگاہ پر 3 مہینوں تک رکی رہی تھی جہاں یہ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
حزب اللہ کے سینئر ذرائع کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق بھی اسی دوران اسرائیلیوں کے لیے پیجرز میں دھماکا خیز مواد نصب کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ 3 ہزار پیجرز اس وقت پھٹے جب اس میں ایک کوڈڈ میسج بھیجا گیا جس کے ساتھ ہی دھماکہ خیز مواد کے بورڈ کو آن کیا گیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News