بیروت/تل ابیب: خطے میں جنگ کے بڑھتے خدشات کے بعد لبنان اور اسرائیل کے درمیان 40 برس بعد پہلی براہِ راست بات چیت ہوئی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنوبی لبنان کے سرحدی قصبے ناقورہ میں امریکا کی زیرِ صدارت سیز فائر مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں لبنان اور اسرائیل کے سویلین نمائندوں کی پہلی براہِ راست ملاقات ہوئی، جسے 40 سال میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: قطر پر ایرانی حملے کے باعث لبنانی وزیر اعظم کے طیارے کی بحرین میں ایمرجنسی لینڈنگ
لبنانی وزیرِاعظم نواف سلام نے کہا کہ بیروت مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم یہ امن بات چیت نہیں، بلکہ ان کا واحد مقصد فوری دشمنی کا خاتمہ، لبنانی قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ لبنان 2002 کی عرب امن تجویز کا پابند ہے اور اسرائیل کے ساتھ کوئی علیحدہ امن معاہدہ نہیں کرے گا۔
سلام نے کہا کہ اجلاس میں سویلین نمائندوں کی شمولیت ’’کشیدگی کم کرنے‘‘ میں مدد دے سکتی ہے، کیونکہ حالیہ اسرائیلی فضائی حملے واضح طور پر صورتحال کی سنگینی دکھا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس، جو تین گھنٹے جاری رہا، نے سویلین نمائندوں کی شمولیت کو ’’پائیدار سویلین و عسکری مکالمے‘‘ کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا اور سرحد پر امن کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کی۔
اسرائیل کا مؤقف
اسرائیلی حکومت کی ترجمان شوش بیدروسیان نے اسے ’’تاریخی پیش رفت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی خطے میں نئی راہیں بنانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں: لبنان کو اپنے خلاف نیا محاذ نہیں بننے دینگے ، نیتن یاہو کی نئی دھمکی
اسرائیلی بیان کے مطابق یہ سیشن امریکا کی ثالثی میں جاری مذاکرات کا حصہ ہے۔
سیاسی تنقید اور ردعمل
لبنان کی جانب سے سابق سفیر سیمون کرم کی بطور نمائندہ تقرری پر ملکی سیاسی حلقوں نے تنقید کی، جسے نواف سلام نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قومی اتفاقِ رائے سے کیا گیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نیتن یاہو اس پیش رفت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جبکہ لبنان کسی امن معاہدے میں نہیں جا رہا۔
حزب اللہ کا معاملہ
لبنانی وزیرِاعظم نے اشارہ دیا کہ کمیٹی کا دائرہ اختیار بڑھا کر اسرائیلی دعوؤں کی براہِ راست تصدیق بھی کی جا سکتی ہے کہ حزب اللہ دوبارہ مسلح ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی یا فرانسیسی اہلکاروں کی زمینی نگرانی بھی ممکن ہے۔
امریکا اور اسرائیل حزب اللہ پر غیر معمولی سفارتی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار چھوڑ دے۔
سلام نے کہا کہ حزب اللہ کا اسلحہ نہ تو اسرائیل کو روک سکا ہے اور نہ لبنان کی حفاظت کر سکا ہے، اس لیے حکومت جنگ اور امن کا اختیار دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ممکنہ حملے کے اشارے موصول ہوئے ہیں، اور صورتحال کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔ لبنان کسی نئی جنگ کی اجازت نہیں دے گا اور ’’غزہ کے تجربے سے سبق سیکھنا‘‘ ضروری ہے۔

