کوریا میں ہر دوسرا نام کم، لی یا پارک کیوں رکھا جاتا ہے؟۔ دلچسپ وجہ جاننے کے لئے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔
دستیاب اعداد کے شمار کے مطابق کوریا میں 45 فیصد لوگوں کے خاندانی نام کم ، لی یا پارک ہوتاہے۔
اس سے زیادہ دلچسپ امریہ ہے کہ تقریباً 90 فیصدخاندانی شجرے کسی نہ کسی حد تک جعلی یا گھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق صرف یہی 3 خاندانی نام ملک کی آبادی کے تقریباً نصف یعنی 2 کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہیں۔
اگر دائرہ پہلے 10 سب سے عام خاندانی ناموں تک بڑھا دیں تو یہ تعداد 64 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
اسی غیر معمولی رجحان کے سبب ہی ایک مشہور کوریائی محاورہ سامنے آیا تھا۔ ’’سیول میں مسٹر کم کو ڈھونڈنا‘‘یعنی بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہوگا۔
پہلی نظر میں تو کوریائی خاندانوں کے نام بہت سادہ لگتے ہیں۔ زیادہ تر ایک ہی لفظ پر مشتمل مگر حقیقت میں ہر نام کے پیچھے درجنوں ذیلی شاخیں اور ہزاروں قبائل موجود ہیں۔

کم قبائل
کِم، گیونگجو کِم یا آن دونگ کِم قبائل سے تعلق رکھ سکتا ہے۔ ہر قبیلے کا تعلق کسی مخصوص علاقے یا آبائی شہر سے جوڑا جاتا ہے۔
انہی روایات کو محفوظ رکھنے کے لیے خاندان جکبو نامی شجرۂ نسب کی کتابیں بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی درستگی ہمیشہ مشکوک رہی ہے اور اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے۔
کوریائی تاریخ
جب نام صرف بادشاہوں کے لیے تھے۔ ہزاروں سال تک کوریا میں خاندانی نام صرف شاہی خاندان اور امرا استعمال کرتے تھے۔
گوکہ زیادہ تر کوریائی آج بھی چند ناموں تک محدود ہیں۔ مگر ان ناموں کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔
آج کل زیادہ تر لوگ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ ان کا شجرہ نسب حقیقی ہے یا نہیں۔ اس جدید دور میں والدین کی دولت، تعلیم اور پیشہ ورانہ کامیابی کی اہمیت ہے۔
یاد رکھنے والی اہم بات
اس لئے یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اب جب بھی آپ کسی کم ، لی یا پارک سے ملیں تو آپ سمجھ جائیں کہ یہ نام اور اس خاندان کی حقیقت کیا ہے۔