سویلینز ٹرائل کیس: کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ آئینی بنچ

اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئینی بنچ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کر دیا، آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کیلئے چھیڑا گیا، آرٹیکل کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کرنے بنیاد حقوق معطل کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہوسکتا، اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہوسکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے، ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ بھی ہوا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہوگا، کیا اب کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ سے فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کیوں نہیں کر رہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں، کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں ایک کورین طیارے کو تباہ کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، طیارہ سازش کیس میں ایک آرمی چیف بیرونی دورے پر تھے انکے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ محض الزام تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے اپنے ریماکس میں کہا کہ ان واقعات میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، شہادتیں ہوئیں، یہ تمام مقدمات کہاں چلائے گئے، ہم ایسے واقعات کا ڈیٹا فراہم کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ کیس ملٹری کورٹس کے وجود کا نہیں بلکہ اختیار سماعت کا کیس ہے، کونسا کیس ملٹری کورٹس میں چلے گا کون سا نہیں چلے گا، یہ تفریق کیسے کی جاتی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لیکر جا رہے ہیں، ایک باسکٹ میں میرا سوال بھی لے جائیں، 9 مئی واقعات میں 103 ملزمان کیخلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا، باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تفریق کیسے کی گئی کونسا کیس ملٹری کورٹس میں جائے گا، کونسا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جائے گا، ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینے کا انسداد دہشت گردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کسی جرم پر کون اور کیسے طے کرتا ہے کیس کہاں جائے گا جبکہ اس دوران جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اسکی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت سے ملزم بری ہو رہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشتگردی عدالتوں کو کیوں نہیں مضبوط بنایا جاتا؟ عدالتوں نے فیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا نو مئی کا واقعہ دہشتگردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جو ان کا ٹرایل فوجی عدالت میں ہو رہا؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہونگی۔
بعدازاں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے، تاہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News