بینچز اختیارات پر ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ

سویلینز ٹرائل کیس: کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع یا محدود ہے؟ آئینی بینچ
اسلام آباد: بینچز اختیارات کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔۔
جسٹس منصور علی شاہ سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی معاون حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، حامد خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل کیا جاسکتا ہے، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے کیس واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر ابہام تو ہے، حامد خان صاحب آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ماضی میں بینچز تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دییے گئے ہیں، یہ خیر چلیں 26ویں ترامیم کا سوال آجائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے بینچ ایگزیکٹو بناتا ہے؟ حامد خان صاحب آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہو؟ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی، کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ اور عدالتی معاون احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترامیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، اس دوران احسن بھون نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ گپ شپ تو لگتی رہے گی، اٹارنی جنرل صاحب آپکو آج ہی سنیں گے، شاہکوشش کریں گے آج ہی سماعت مکمل ہو جائے۔
بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

