آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا

آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے تمام پانچ ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکہ کرنے والے اور عام سویلینز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلینز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترامیم نہ کرنا پڑتی۔
جسٹس حسن اظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اکسیویں ترامیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترامیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترامیم بلاوجہ کی گئی۔
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ اکسیویں ترامیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترامیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔
جسٹس حسن اظہر نے وکیل سے پوچھا کہ پندرہ دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔
خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ ایف بی علی کیخلاف ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیاء الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔
وکیل نے کہا کہ کورٹ مارشل کرنے والے ضیاء الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے کہ اس دور میں تو کمانڈنٹ ان چیف اور ایئر چیف کو بھی اغواء کر لیا گیا تھا، اغواء کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہر نے جواب دیا کہ اس کیلئے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، ان کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
آئینی بینچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی نظرثانی واپس لینے پر جرمانہ ختم کردیا گیا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دینا شروع کردیے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News