Advertisement

سپریم کورٹ کا ججز ٹرانسفر کیس پر بڑا فیصلہ: اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی قرار

سپریم کورٹ: جونیئر ججز کیخلاف سخت ریمارکس ناقابل قبول، عدلیہ میں باہمی احترام ضروری قرار

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلوں سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے انہیں آئین کے مطابق قرار دے دیا اور ججز کی سنیارٹی کے معاملے کو صدرِ پاکستان کو واپس بھجوا دیا تاکہ وہ مشاورت سے حتمی فیصلہ کریں۔

ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے 2-3 کی اکثریت سے سنایا۔ اکثریتی بینچ میں جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہور شامل تھے جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اختلافی نوٹ دیا۔

فیصلہ کے اہم نکات

ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں، آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر مملکت یہ اختیار رکھتے ہیں۔

آرٹیکل 175 تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ہے جبکہ تبادلے کا اختیار علیحدہ تصور کیا گیا۔

Advertisement

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دیا جا رہا۔

ججز کے تبادلے کا عمل صدر پاکستان کے اختیار میں ہے، جو کہ چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ججز سے مشاورت کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔

جسٹس سرفراز ڈوگر سنیارٹی کے تعین تک قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

عدالت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ کا اطلاق آئینی شقوں پر نہیں ہوتا۔

اختلافی نوٹ

جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تبادلہ آئینی خلاف ورزی پر مبنی ہے، تبادلے کی کارروائی جلد بازی اور بغیر وجوہات کے انجام دی گئی۔

Advertisement

اختلافی نوٹ کے مطابق آئین کے تحت تبادلے کے بعد جج کو مستقل تقرری دینا درست نہیں، ججز کا تبادلہ بد نیتی پر مبنی تھا اور اسے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔

کیس کی سماعت

فیصلے سے قبل جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کی سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے پیٹرن اِن چیف کی جانب سے وکیل ادریس اشرف نے جوابی دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 200 اور 175 میں تضاد موجود ہے اور عدالت کو ان آرٹیکلز کی ہم آہنگ تشریح کرنی چاہیے۔

وکیل ادریس اشرف نے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ جوڈیشل کمیشن کو ججز کے تبادلے کا اختیار حاصل نہیں، اور خالی نشست پر جج کا مستقل تبادلہ آئین کے خلاف ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر موجود جج اسلام آباد بار کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔

Advertisement

دوران سماعت جسٹس نعیم افغان نے سوال اٹھایا کہ کیا ماضی میں کسی جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں ججز کے تبادلے کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔

Advertisement

دوسری جانب اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے تبادلے کے عمل میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار محدود ہوتا ہے جبکہ اس عمل میں متعلقہ چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہوتے ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ تبادلے کے عمل میں بدنیتی منصوب نہیں کی جا سکتی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 200 میں تبادلے کا مکمل طریقہ کار واضح طور پر موجود ہے۔

وکیل منیر اے ملک نے وضاحت کی کہ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ تبادلے پر آئے ججز “ڈیپوٹیشنسٹ” ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست میں ججز کو “ڈیپوٹیشنسٹ” لکھا گیا ہے، ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ تاہم عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت مکمل کرلی۔

پس منظر

یہ کیس اس وقت منظرعام پر آیا جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں کچھ ججز کا تبادلہ کیا گیا، جس پر اعتراضات اور آئینی نکات اٹھائے گئے تھے۔

عدالت عظمیٰ نے اب اس فیصلے کے ذریعے آئینی وضاحت فراہم کر دی ہے کہ تبادلے اور تقرری دو الگ الگ عمل ہیں۔

Advertisement

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
اختتام
مزید پڑھیں
آج کی بول نیوز
سپریم کورٹ کا ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا حکم
سپر ٹیکس کیس سے متعلق سپریم کورٹ سے بڑی خبر آگئی
بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کیخلاف توشہ خانہ ٹو کیس میں اہم پیشرفت
توشہ خانہ ٹو کیس کے 2 اہم گواہان کے بیانات سامنے آگئے
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ چیئرمین پی ٹی اے عہدے پر بحال، سنگل بینچ کا فیصلہ معطل
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روک دیا گیا
Advertisement
Next Article
Exit mobile version