استاد امانت علی خان کو بچھڑے 51 برس بیت گئے

کلاسیکی موسیقی میں ’’سند‘‘ کا درجہ رکھنے والے شام چوراسی گھرانے کے عظیم گلوکار استاد امانت علی خان کو بچھڑے 51 برس بیت گئے، مگر ان کے گائے ہوئے نغمے اور غزلیں آج بھی موسیقی کے شائقین کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے امانت علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کر انہوں نے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی ریڈیو پاکستان لاہور پر ان کی آواز سننے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر چکی تھی۔
قدرتی صلاحیت، سخت محنت اور والد کی تربیت نے انہیں کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری اور غزل گانے میں کمال عطا کیا۔ غزل کو کلاسیکی موسیقی سے ہم آہنگ کرنے میں شام چوراسی گھرانے کا کردار آج بھی ناقابلِ فراموش سمجھا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: کلاسیکل گلوکار اسد امانت علی خان کی آج 15ویں برسی
استاد امانت علی خان اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے، یہاں تک کہ بلند لے میں بھی ان کی آواز نہ ڈگمگاتی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے گائے ہوئے گیت جیسے “ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے”، “مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے” اور “یہ آرزو تھی کہ تجھے گل کے روبرو کرتے” آج بھی کلاسیکی موسیقی کی اعلیٰ مثالیں سمجھی جاتی ہیں۔
انہوں نے ملی نغموں میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ “چاند میری زمیں، پھول میرا وطن” اور “اے وطن پیارے وطن” جیسے نغمے ان کے فن کی پہچان بنے۔ تاہم ابنِ انشا کی غزل “انشا جی اٹھو اب کوچ کرو” نے انہیں وہ شہرت بخشی جو وقت کے ساتھ اور بھی گہری ہوتی چلی گئی۔
قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہوئے اور منٹو پارک کے قریب رہائش اختیار کی۔ استاد امانت علی خان 17 ستمبر 1974 کو صرف 52 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں مدفن ہیں۔
ان کے فن کا جادو آج بھی کم نہیں ہوا۔ ان کی آواز سننے والے آج بھی شدتِ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں اور یہی ان کے فن کی اصل کامیابی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News