جسم میں مخصوص خلیہ الزائمر کی ایک اہم وجہ قرار، تحقیق میں نیا انکشاف

دنیا بھرمیں الزائمر کی بڑھتی ہوئی شرح ماہرین کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں انسان اپنی ذہنی استعداد کھو بیٹھتا ہے۔
واضح رہے کہ الزائمر کا مرض ڈیمنشیا کی سب سے عام قسم ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بتدریج بڑھتی جس کی ابتدا یادداشت کی ہلکی کمی سے ہوتی ہے جبکہ آگے بڑھ کریہ گفتگو کو جاری رکھنے اور ماحول کا جواب دینے کی صلاحیت سے محرومی کا باعث بنتی ہے۔ الزائمر کی بیماری دماغ کے ان حصوں کا متاثر کرتی ہے جو سوچ، یادداشت اور زبان کو کنٹرول کرتے ہیں۔
تاہم حال ہی میں کی جانے والے ایک تحقیق کے مطابق جسم کے کمزور سمجھے جانے والے مدافعتی خلیوں کی کم پیداوار الزائمر، علمی زوال اور ان کی دیگر اقسام جیسے عارضے میں مبتلا کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے واضح رہے یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی ہے۔
تحقیق سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے ان خلیوں کی تعداد میں اضافہ دماغ کو ہونے والے نقصان کو ریورس کرسکتا ہے۔
اس اہم خلیہ کو میوکوسل ایسوسیئٹس انویرینٹ ٹی سیل کہا جاتا ہے جو کہ کسی قدر ٹی سیل کی طرح جسم میں کسی انفیکشن کی صورت میں دفاع کا کام انجام دیتا ہے۔
محققین نے یہ جاننے کے لیے کہ یہ خلیے کس طرح الزائمرجیسے مرض سے بچانے اور اس کی کمی کس طرح اس مرض میں مبتلا کر سکتی ہے چوہوں پر تحقیق کی۔
محققین نے چوہوں میں اس جین کو غیر فعال کر دیا جو میوکوسل سے وابستہ انویرینٹ ٹی سیلزکو پیدا کرتا ہے اور نارمل اور میوکوسل ایسوسیئٹس انویرینٹ ٹی سیل کی کمی والے چوہوں کے علمی فعل کا موازنہ کیا۔ ابتدائی طور پر، دونوں گروہوں نے یکساں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن جیسے جیسے چوہے درمیانی عمر میں پہنچے، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چوہوں نے نئی یادیں بنانے کے لیے جدوجہد کی۔
اس کے بعد محققین نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چوہوں میں میوکوسل ایسوسیئٹس انویرینٹ ٹی سیل کو انجیکٹ کیا اورپھر ان کی یاداشت کا مختلف طریقوں سے ٹیسٹ کیا یعنی سیکھنے اور یادداشت کے زیادہ کاموں میں ان کی کارکردگی، جیسے پانی کی بھول بھلیاں کے ذریعے تیراکی کو نوٹ کیا تو اس سیل کے جسم میں داخل ہونے بعد ان کی کار کردگی معمول پر آگئی۔
محققین نے خیال ظاہر کیا کہ یہ خلیہ علمی فعلیت کے ساتھ براہ رسات وابستہ ہے جبکہ یہ پہلا موقع تھا جب ماہرین نے دونوں کے درمیان تعلق کا بغور جائزہ لیا۔ محققین نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اس تحقیق کی پیروی کرتے ہوئے صحت مند انسانوں اور الزائمر جیسی علمی بیماریوں میں مبتلا افراد میں اس خلیے کی تعداد کا موازنہ کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں اس حکمت عملی کو اپنا کر اس مرض کے ممکنہ خطرے کو کم کیا جاسکے۔
کیو یانگ جو کہ رٹجرز رابرٹ ووڈ جانسن میڈیکل اسکول میں چائلڈ ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ آف نیو جرسی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور نیچر امیونولوجی میں اس تحقیق کے سینئر مصنف ہیں کہتے ہیں کہ
دماغ کی حفاظت کرنے والے یہ خلیے میننجز میں موجود ہوتے ہیں، لیکن وہ خون میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک سادہ سے خون کے ٹیسٹ سے صحت مند افراد اور الزائمر اور دیگر ذہنی عوارض میں مبتلا افراد میں اس خلیے کی سطح کا موازنہ کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ یہ خلیات 1990 کی دہائی میں دریافت ہوئے تھے، جبکہ یہ پیدائشی طورپر پہلے ہی انسانوں میں سب سے زیادہ پائے جانے والے T خلیات اور جگر اور جلد میں خاص طور پر متعدد ہونے کے لیے جانے جاتے تھے تاہم یہ نیا مطالعہ تھا جس میں ان خلیات کا الزائمر کے ساتھ تعلق کو واضح کیا گیا۔
میننجز میں گھرے ہوئے یہ خلیے ایسے اینٹی آکسیڈینٹ مالیکیولز بنا کر علمی زوال کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اس طرح یہ توانائی کی پیداوار کے زہریلے ضمنی اثرات کا مقابلہ کرتے ہیں ان خلیوں کی غیر موجودگی میں یہ ضمنی اثرات میننجز میں جمع ہوتے ہیں اور میننجیل رکاوٹ رساو کا سبب بنتی ہیں۔ جب میننجیل رکاوٹ لیک ہوتی ہے تو، ممکنہ طور پر زہریلے مادے دماغ میں داخل ہوتے ہیں اور سوجن کا سبب بنتے ہیں جو بالآخر دماغ کے افعال میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
نیو جرسی کے چائلڈ ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق، اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف یوآنیو ژانگ کا کہنا ہے کہ جینیاتی تبدیلی نے تجرباتی چوہوں کو کسی حد تک اس خلیے کو پیدا کرنے سے روکا، لیکن انسان اپنی غذا یا طرز زندگی میں ردوبدل کر کے میوکوسل ایسوسیئٹس انویرینٹ ٹی سیل کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News