Advertisement

یہ نیا ٹیسٹ جسم میں چھپے وائرس کا پتا لگا کر آپ کی صحت بڑھا سکتا ہے

صحت

یہ نیا ٹیسٹ جسم میں چھپے وائرس کا پتا لگا کر آپ کی صحت بڑھا سکتا ہے

ییل یونیورسٹی کے محققین کے مطابق ناک کی اندرونی سطح کا معائنہ اس بات سے آگاہ کرسکتا ہے کہ جسم میں وائرس موجود ہے جس کا بروقت پتا لگا کر صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

تاہم ماہرین اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ صرف کورونا وائرس ہی نہیں بلکہ دیگر وائرس کی موجودگی کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ ہونا چاہئے جو جسم میں وائرس کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کر سکے تاکہ اس کا بروقت علاج کیا جاسکے۔

ایسے کئی طریقے ہیں جن سے نئے وائرسوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جو انسانی صحت کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں، ان میں جانوروں میں بیماری کی نگرانی کیونکہ ان میں کئی ایسے وائرس ہیں جو منتقل ہوسکتے ہیں لیکن یہ اتنی خطرے کی بات نہیں۔

تاہم ییل یونیورسٹی کے محققین نے ایک ایسا ٹیسٹ تیار کیا ہے جس میں ناک میں موجود مائع ماہرین کو تیزی سے متنبہ کر سکتا ہے کہ کسی نامعلوم وائرس کا خطرہ موجود ہے جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے لیے وائرس کا براہ راست پتا لگنا ضروری نہیں ہے۔

ابتدائی ٹیسٹوں کی بنیاد پر، یہ چھپے ہوئے وائرسوں کو تلاش کرنے کا ایک تیز اور موثر طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔

محققین اپنے شائع شدہ مقالے میں لکھتے ہیں، اگرچہ جانوروں کی اسکریننگ یا جمع کیے گئے انسانی نمونے غیر تسلیم شدہ وائرسوں کی شناخت کر سکتے ہیں، لیکن یہ طریقہ خاص طور پر ایسے وائرسوں کی شناخت نہیں کرتا جو انسانی بیماری کا باعث نہیں بن سکتے۔

Advertisement

سابقہ ٹیسٹ جسم میں علامات کے ظاہر ہونے پر کئے جاتے تھے پھر وائرس کا پتا لگایا جاتا تھا تاہم یہ ٹیسٹ جسم کو پہلے ہی آگاہ کرسکتا ہے۔

محققین نے اس مقصد کے لیے مختلف مریضوں کے ناک میں موجود مائع کے نمونے حاصل کئے وہ اس عام ٹیسٹ سے تقریباً 10 سے 15 معلوم وائرسوں کا پتہ لگانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اس سے قبل کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ معاملات میں اس بات کے ثبوت ملے کہ جسم کسی وائرس کی شناخت یا موجودگی کے بغیر انفیکشن سے لڑ رہا ہے۔

ایسا اس وقت سامنے آیا جب ناک میں سی ایکس سی ایل 10 اینٹی وائرل پروٹین میں اضافہ نوٹ کیا گیا یہ وہ پروٹین ہے جو جسم کے دفاع کے لیے کام کرتا ہے اور ناک کی اندرونی سطح سے اس کا آسانی پتا لگایا جاسکتا ہے اس طرح وائرس کو جانے بغیر بھی پتا لگا سکتے ہیں کہ کوئی وائرس جسم میں ضرور موجود ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے اگران نمونوں میں وائرس موجود نہ ہو تاہم پروٹین میں اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جسم کسی وائرس کی موجودگی میں اپنا ردعمل پیش کر رہا ہے اس طرح یہ تحقیق کی ایک نئی راہ ہموار کرتی ہے اوران وائرس کے بارے میں آگاہی فراہم کرسکتی ہے جو ابھی معلوم نہیں ہیں۔

اسی طرح محققین مستقبل میں دوسرے پروٹینوں پر تحقیق کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اسی پروٹین سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ کس طرح ناک کے بیکٹیریا بھی وائرس کی موجودگی کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں-

کنیکٹی کٹ کے ییل سکول آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والی امیونو بایولوجسٹ ایلن فاکس مین کا کہنا ہے کہ ایک خطرناک نئے وائرس کو تلاش کرنا گھاس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم ہم نے گھاس کے اسٹیک کے سائز کو نمایاں طور پر کم کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا ہے۔

یہ تحقیق دی لانسیٹ مائیکروب میں شائع ہوئی ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
اختتام
مزید پڑھیں
آج کی بول نیوز
کیا دوران حمل ماں کی آنکھوں کا رنگ بدلنے کا اثر بچے کی آنکھوں پر بھی پڑتا ہے؟
ہیلتھ سیکٹر میں بڑی پیش رفت؛ 10 ملین ڈالر سے جدید ادویات کی تیاری کا منصوبہ
دوران حمل قلب کتنا متاثر ہوتا ہے؟ تحقیق میں اہم انکشاف
سفید انار کے فوائد جو آپ کو حیران کر دیں
ملازمت کی کون سی شفٹ گردوں کی صحت کو متاثر کرتی ہے؟
سبز یا سیاہ، بہتر صحت کیلئے کس رنگ کے انگور کا انتخاب کیا جائے؟
Advertisement
Next Article
Exit mobile version