جھوٹی خبروں کا سب سے زیادہ نقصان خبردینے والے کو ہوتا ہے، سپریم کورٹ

جسٹس سپریم کورٹ قاضی امین نے ریمارکس میں کہا ہے کہ جھوٹی خبروں کا سب سے زیادہ نقصان خبردینے والے کو ہوتا ہے۔ جھوٹی خبروں کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے پرازخودنوٹس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے جنات کے ذریعے کشمیرکے وزیراعظم کے انتخاب کی خبرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس خاتون کی پبلک لائف نہیں اس کی تضحیک کی گئی۔عوامی عہدہ رکھنے والوں پرتنقید کرنے پراعتراض نہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا اٹارنی جنرل صاحب! عدالت گالم گلوچ کے معاملے میں فریق نہیں بنے گی۔ جنات والی بات گھٹیا اورغیراخلاقی ہے لیکن قابل تعذیرجرم نہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں ہتک عزت کے مناسب قوانین موجود نہیں۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ انگلینڈ میں میڈیا کی آزادی کی بات کرتے سب وفات پا رہے ہوتے ہیں۔ انگلینڈ میں کوئی ایسی بات کرے تو گھربیچ کر بھی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ جھوٹی خبروں کا سب سے زیادہ نقصان خبردینے والے کو ہوتا ہے۔ جھوٹی خبروں کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جھوٹی خبریں دینے والےجوچاہے کہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ صحافیوں پرغیرریاستی عناصر کی جانب سے بھی تشدد کیا جاتا ہے۔ ہرکوئی چاہتا ہے شام کو اس کی مرضی کا تبصرہ ہو۔اٹارنی جنرل صاحب آپکی باتیں مان لی جائیں تو ہمیں یہ سولر سسٹم ہی چھوڑنا پڑے گا۔
ریمارکس میں جسٹس قاضی امین نے کہا قابل جوازپابندیوں سے صرف آزادی صحافت نہیں بلکہ تمام بنیادی حقوق متاثرہوں گے۔ اگر قابل جواز پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو پھر پینل کوڈ پھاڑکرپھینک دیں۔ مارشل لاز کے دوران آئین و قانون سے جو کھلواڑ کیا گیا کیا وہ ٹھیک ہوسکتا ہے؟ہربنیادی حق کے اپنے پہلو ہیں ہم پینڈورا بکس نہیں کھولنا چاہتے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا پابندیاں ہمیشہ قابل جواز ہونی چاہئیں۔
پیمرا کے وکیل نے کہا کہ پیمرا رولز کے مطابق چینلزکوریگولیٹ کرتے ہیں۔ پیمرا نے ٹی وی ڈراموں میں گلے لگانے سے منع کیا تواسے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پیمرا کون ہوتا ہے گلے لگانے سے روکنے والا یہ تو خود ڈراما بنانے والے خیال کریں۔
وکیل پیمرا نے کہا فحاشی کی نہ کوئی تعریف ہے نہ حدود و قیود اس طرح ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔
جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پرایک دوسرے کو گالیاں دی گئیں اور پھر کہا گیا یہ لاہور کا کلچر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے صاحب بتائیں اب تک صحافیوں کی شکایات پر کیا اقدامات کیے ہیں۔
ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں سے ملاقات کی ہے اور تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔
سابق صدر پریس ایسوسی آف سپریم کورٹ امجد بھٹی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ڈی جی ایف آئی سے خوشگوار ملاقات ہوئی اورہم نے انھیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے مسکراتے ہوئے استفسارکیا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے آپ کو چائے پلائی یا نہیں؟ جس پر امجد بھٹی نے جواب دیا کہ جی ڈی ایف آئی اے نے چائے کے ساتھ ریفریشمنٹ بھی کرائی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ڈی جی ایف آئی اے نے آپ کو کوئی ٹوکری تو نہیں دی جس پر کمرہ عدالت میں پھر قہقہے لگے۔
دورانِ سماعت آئی جی اسلام آباد احسن یونس بھی عدالت میں پیش ہوئے
جسٹس قاضی امین نے پوچھا آئی جی صاحب ابصارعالم کا قاتل پکڑا یا نہیں؟
آئی جی اسلام آباد احسن یونس نے بتایا کہ نادرا کو ڈیٹا بھیجا ہوا ہے ابھی تک ملزم گرفتار نہیں ہوسکا۔ صحافیوں کے 16 مقدمات میں سے 12 حل ہوچکے اور 4 کی تحقیقات جاری ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا آئی جی صاحب آپ ایک قابل افسرہیں دارالحکومت میں گولی چلی ملزم کو پکڑیں۔ ابصارعالم کو میں نہیں جانتا کسی بھی شخص پر حملہ ہو تو پولیس اس کا پتا چلائے۔ اسلام آباد میں پولیس پرفائرنگ ہوتی ہے ایسے واقعات کو روکنا ہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئندہ سماعت پر آرٹیکل 19 اورسیکشن 27 پر اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی پی کو سنیں گے۔
سپریم کورٹ نے صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی اپنی رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

