سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو، عدالت کا اٹارنی جنرل سے معاونت طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوکے معاملے پراٹارنی جنرل سے 28 جنوری کو معاونت طلب کرلی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو کی تحقیات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
عدالت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ توقع ہے درخواست گزارآڈیو حاصل کرکےعدالتی ریکارڈ پرلائیں گے۔ آڈیو کا فرانزک کرانے کی پیشکش پراٹارنی جنرل آئندہ سماعت پرمعاونت کریں۔
عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزارآئندہ سماعت پریہ بھی بتائیں کہ آڈیو فرانزک کرانے کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔ معاملے کا براہ راست تعلق زیرالتوا اپیلوں سے بھی ہے۔
حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل اور درخواست گزاربتائیں عدالتی کارروائی سے ان اپیلوں پرکیا اثر پڑے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزارصلاح الدین ایڈوکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج کیس کے آغاز میں ریمارکس میں کہا کہ کیا آڈیو کا کسی فرم سے خود فرانزک کرایا جائے؟ درخواست گزارخود فرانزک کمپنی کا نام دینے کیلئے پاکستان بارکونسل سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کوئی اصل آڈیو موجود بھی ہے یا نہیں۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ ایسی اصل آڈیو کہاں موجود ہے؟
درخواست گزار وکیل صلاح الدین نے عدالت سے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ اصل آڈیو موجود ہے یا کہاں ہے۔ جو بھی معاملہ ہے اس کی تحقیقات ہوں تو پتہ چلے گا سارا معاملہ کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارے معاملات ایک زیرالتوا اپیلوں سے متعلق ہیں۔ اگر کوئی بھی آرڈر دیں تو کیا ان اپیلوں کے فریقین کا فئیرٹرائل کا حق متاثرنہیں ہوگا؟
عدالت نے کہا کہ ہوسکتا ہے جن کی اپیلیں ہیں وہ اس کیس میں انکوائری چاہتے ہی نہ ہوں۔ آپ کی درخواست میں ایک اِن ڈائریکٹ الزام بھی ہے۔ الزام یہ ہے کہ اس عدالت کے بنچ کسی اثرمیں بنتے رہے۔ آپ کوئی ایک معمولی سا ثبوت ہی دکھا دیں کہ کون سا بنچ بنا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کسی بنچ کا ایسا آرڈر ہی دکھا دیں کہ یہ کسی کمپرومائزڈ بنچ نے جاری کیا ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ انکوئری ہو تو انکوائری ان ججوں کی ہی ہو گی نا؟ کسی بنچ کے کنڈکٹ یا ان کے آرڈر کی ہی نشاندہی کریں نا۔
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے عدالت سے کہا کہ آڈیو میں کوئی پتا نہیں دوسری سائیڈ پر کون بول رہا ہے۔ ہم نہیں کہتے دوسری سائیڈ پر بھی کوئی جج ہی موجود تھا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس عدالت میں سب کچھ اوپن کورٹ میں ہوتا رہا ہے۔ سارے بنچوں نے جو آرڈر پاس کیے وہ بھی موجود ہیں۔ کوئی ہلکا سا ثبوت تو دیں نا کہ کون سا بنچ ایسا بنا ؟
درخواست گزاروکیل صلاح الدین ایڈووکیٹ نے فیکٹ فوکس کی خبر کا متن پڑھ کر سنا دیا۔ وکیل کی جانب سے فرانزک رپورٹ بھی پڑھ کرسنا دی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیت کہ رپورٹ میں یہ تو نہیں لکھا نا کہ کس کی آڈیو ہے؟ آپ نےیہ فرانزک رپورٹ کہاں سے لی ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ میں نے یہ رپورٹ انٹرنیٹ سے حاصل کی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اب اس رپورٹ میں تو نہیں لکھا نا کہ اُسی آڈیو کی رپورٹ ہے۔ پاکستان بار کونسل آڈیو کا خود فرانزک کیوں نہ کرائے؟ دنیا کی کسی بہترین کمپنی سے فرانزک کروا لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایک ایسا ڈاکومنٹ تو دیں نا جس پر کارروائی شروع ہو سکے۔ آپ نے جو فرانزک رپورٹ دکھائی اس پرانحصار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کریڈیبل چیزسامنے آئے گی تو ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی درخواست زیرالتوا رکھ لیتے ہیں۔ آپ پاکستان بارکونسل سے مشورہ کرکے کوئی نام بتادیں۔
صلاح الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت پاکستان بار کونسل کو خود ہدایت جاری کردے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین صاحب تاریخ واقعی تلخ ہے۔ ماضی میں جن سے متعلق باتیں سامنے آئیں انہوں نے قبول بھی کیں۔
عدالت نے ریمارکس میں مذید کہا کہ یہاں آپ کسی اورعدالت کے سامنے نہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے ہیں۔ سارا سوال 15جولائی 2018 سے اگست 2018 تک ہے۔ اس دوران کا کوئی ایک آرڈر ہی بتا دیں جس پر شک ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل سے غیر ملکی مستند فرانزک ایجنسیوں کے نام طلب کرلیے اور پٹیشنر کو آڈیو کلپ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 جنوری تک ملتوی کر دی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

