عراق پر ایرانی میزائل حملہ، امریکہ و جرمنی میدان میں آگئے

امریکہ کا کہنا ہے کہ اربیل میں ایرانی میزائل حملے کے بعد اس نے عراقی اور علاقائی کرد حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ خطے کو میزائل سے بچاؤ کی صلاحیتوں سے لیس کیا جا سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عراق کی وزارت خارجہ نے ایرانی سفیر کو طلب کر کے اربیل پر ایرانی پاسداران انقلاب فورس کی جانب سے میزائل حملے پر شدید احتجاج کیا اور اسے اپنی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھی فون پر بات چیت کی ۔ فون کال کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو یرونی طاقتوں کو اپنی انتقامی کارروائیوں کے لیے اسٹیج نہیں بننے دینا چاہیے۔
اس ضمن میں امریکہ اور جرمنی نے بھی اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک تحریری بیان میں کہا کہ ہم ایران کو جوابدہ ٹھہرانے میں عراق کی حکومت کی حمایت کریں گے۔ ہم پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کی طرف سے اس طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے میں اپنے شراکت داروں کی مدد کریں گے۔
اس تناظر میں جرمن دفتر خارجہ نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اسلامی شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
برلن نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ داعش کے خلاف عالمی اتحاد کے سفارتی عملے، نمائندوں اور ان کی تنصیبات پر حملے قطعی ناقابل قبول ہیں۔ اس حملے کے مرتکب افراد کو جوابدہ ٹھرانے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے، ایران نے اتوار کی صبح عراق کے شمال میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقے کے دارالحکومت اربیل کو نشانہ بنانے والے میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے سے کوئی جانی نقصان یا شدید طور پر کوئی زخمی تو نہیں ہوا تھا تاہم ایک کرد ٹی وی چینل’ کے 24 ‘کے اسٹوڈیوز اور اس کے آس پاس کی عمارتوں کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

