توہین عدالت کیس؛ رانا شمیم نے عدالتی حکم پر بیان حلفی جمع کرا دیا

بیان حلفی میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو اس سے قبل شوکازنوٹس کے جواب میں بیان کی گئی تھیں۔ رانا شمیم کے بیان حلفی میں معذرت کے ساتھ معافی کا لفظ بھی شامل کیا گیا ہے۔
عدالت کے حکم پر رانا شمیم نے بیان حلفی جمع کراتے ہوئے میں کہا کہ اس عدالت کے ججز کا بہت احترام ہے، وہ انڈی پینڈنٹ ہیں اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ خود جج رہ چکا ہوں اورعدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں۔
سابق چیف جج گلگت بلتستتان نے بیان حلفی میں کہا کہ عدالت کو جو زحمت ہوئی اس پر معافی مانگتا ہوں اور معذرت خواہ ہوں۔ بیان حلفی 10 نومبر2021 کو لکھ کر سیل کیا اور کسی کو اس کا متن نہیں بتایا۔ بیان حلفی سربمہر لفافے میں اپنے نواسے کو دیا جو اس وقت لندن میں پڑھ رہا تھا۔
رانا شمیم نے کہا کہ امریکا میں 30 اکتوبر 2021 کو سمپوزیم میں بطورمہمان خصوصی شرکت کی جس کا عنوان پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا۔ امریکا سے واپسی 17 نومبرکو طے تھی مگر 6 نومبرکو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی۔
سابق چیف جج نے کہا کہ امریکا کا دورہ مختصر کر کے 7 نومبر کو پاکستان کے لیے واپسی کی مگر ڈائریکٹ فلائیٹ نہ مل سکی۔ لندن سے 10 نومبر کو بذریعہ دبئی کراچی کی فلائیٹ تھی۔ بھائی کی وفات سے قبل چارماہ کے عرصہ کے دوران چار قریبی عزیز بھی فوت ہوئے۔
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ اکتیس مارچ کو سالی، چار جون کو اہلیہ، اگست میں بھابھی اور پانچ جولائی کو انکل کا انتقال ہوا۔ فیملی ممبرز کے جدا ہونے کے بعد اپنے علم میں موجود حقائق جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔ اپنی مرحومہ اہلیہ کی وصیت کے مطابق لندن میں ٹرانزٹ کے دوران ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔
بیان حفی میں رانا شمیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتایا کیونکہ بیان حلفی ثاقب نثار سے متعلق تھا جو خود کونسل کے سربراہ تھے۔ بیان حلفی میں وہی حقائق بیان کیے جو کچھ دیکھا اورسنا۔ یہ حقائق منظرعام پر لانے کا ارادہ نہ تھا مگر حالات اور مرحومہ اہلیہ سے کیے وعدے نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
سابق جج کا کہنا تھا کہ دس نومبر کا بیان حلفی لیک نہیں کیا اور نہ ہی اشاعت کے لیے دیا۔ جنہوں نے بیان حلفی حاصل کرکے شائع کیا، مبینہ توہین عدالت کے ملزمان کے خلاف عدالت نے کارروائی نہیں کی۔ بیان حلفی میں اپنی رائے دی نا الزام لگایا بلکہ حقائق بیان کیے جو خود سنے۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان نے کہا کہ نہیں معلوم کہ صحافی انصارعباسی نے کیسے بیان حلفی حاصل کیا۔ بیان حلفی لندن میں نواسے کے پاس سربمہر لفافے میں تھا جو عدالتی حکم پر بذریعہ کوریئر سروس براہ راست رجسٹرار کوبھجوایا گیا۔ کوریئر سروس نے پہلے سے بند لفافے پراپنے کمپنی کے لوگو والی ٹیپ لگا کراسے مزید محفوظ کیا جو ان کی معمول کی پریکٹس ہے۔
رانا شمیم نے کہا کہ انصارعباسی کو بیان حلفی کا متن شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انصارعباسی کی کال موصول ہوئی مگرخراب موبائل نیٹ ورک سروس کے باعث بات نہ ہوسکی۔ بیان حلفی کی اشاعت کا ذمہ دار ثابت کیے بغیر کوئی کارروائی نامناسب ہوگی۔ یہ بات انکوائری میں سامنے آ سکتی ہے کہ انصارعباسی کو بیان حلفی کے مندرجات کا علم کیسے ہوا؟
سابق چیف جج نے کہا کہ ضروری ہے کہ انکوائری میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے جوابی بیان حلفی لے کر جرح کا موقع دیا جائے۔ انکوائری میں بیان حلفی کے حقائق درست ثابت ہوئے تو میرے خلاف سارا کیس زمین بوس ہو جائے گا۔ بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے سیل کرکے اسے خفیہ رکھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

